سانس کا وہ ٹیسٹ جو لبلبے کے سرطان کے علاج میں ’انقلاب‘ لا سکتا ہے

لبلبے کے سرطان کی غیر واضح علامات میں کمر درد اور بدہضمی شامل ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ مرض اکثر اس وقت تک تشخیص نہیں ہوتا جب تک یہ جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل نہیں جاتا۔

لبلبے کے سرطان کی تشخیص کے لیے دنیا کے پہلے سانس کے ٹیسٹ کے ٹرائل سے اس کے مؤثر ہونے کا اندازہ لگایا جائے گا (جیف مور/ پینکریاٹک کینسر یو کے/ پی اے وائر)

ماہرین نے کہا ہے کہ سانس کا ایک نیا ٹیسٹ لبلبے کے سرطان کے مریضوں کے علاج میں ’انقلاب برپا‘ کر سکتا ہے۔

لبلبے کے سرطان کی تشخیص کے لیے دنیا کے پہلے سانس کے ٹیسٹ کے ٹرائل سے اس کے مؤثر ہونے کا اندازہ لگایا جائے گا۔ اس بیماری کی تشخیص ابتدائی مرحلے میں نہیں ہو پاتی۔

پینکریاٹک کینسر یو کے، جو اس تحقیق کی مالی معاونت کر رہا ہے، نے کہا ہے کہ اس ٹرائل کا آغاز 50 سالوں میں ’زندگی بچانے والی سب سے بڑی پیش رفت کی طرف سب سے اہم قدم‘ ہے۔

اس بیماری کی غیر واضح علامات میں کمر درد اور بدہضمی شامل ہیں، جس کا مطلب ہے کہ یہ مرض اکثر اس وقت تک تشخیص نہیں ہوتا جب تک یہ جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل نہیں جاتا۔

انگلینڈ اور ویلز میں لبلبے کے سرطان کے حالیہ جائزے سے پتہ چلا کہ زیادہ تر مریضوں میں آخری مرحلے میں تشخیص ہوتی ہے، یعنی انگلینڈ میں 62 فیصد اور ویلز میں 65 فیصد مریضوں کو چوتھے مرحلے پر اس کی تشخیص ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس قسم کے سرطان کے لیے زندہ بچنے کی شرح خاص طور پر کم ہے۔ انگلینڈ میں تقریباً 22 فیصد مریض تشخیص کے 30 دن کے اندر زندہ نہیں رہ پاتے، جب کہ ویلز میں یہ شرح 21 فیصد ہے۔

اب لندن کے امپیریل کالج کے سائنس دان سانس کے اس نئے ٹیسٹ کے ذریعے اس بیماری کا رخ موڑنے کی امید کر رہے ہیں۔

یہ ٹیسٹ انگلینڈ، ویلز اور سکاٹ لینڈ کے 40 مراکز میں نامعلوم تشخیص والے چھ ہزار مریضوں پر آزمایا جائے گا۔

اگر یہ موثر ثابت ہوا تو امید کی جاتی ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں یہ ٹیسٹ عام معالجین کی سطح پر متعارف کروایا جا سکے گا، جس سے مریضوں کی بروقت تشخیص ممکن ہو گی اور علاج زیادہ مؤثر ثابت ہو گا۔

یہ ٹرائل دو سال کے دوران 700 مریضوں پر کیے گئے ایک چھوٹے مطالعے کے بعد کیا جا رہا ہے، جس کے نتائج ’حوصلہ افزا‘ تھے۔

فلاحی ادارے کے مطابق یہ ٹیسٹ سانس میں موجود وولوٹائل نامیاتی مرکبات (Volatile Organic Compounds) کے مجموعے کی نشاندہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

ہزاروں ایسے مرکبات خون کے بہاؤ میں گردش کرتے ہیں اور جب خون پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے تو یہ فلٹر ہو کر سانس کے ذریعے خارج ہو جاتے ہیں۔

ادارے کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں اس وقت بھی ظاہر ہوتی ہیں، جب سرطان ابھی اپنی ابتدائی حالت میں ہوتا ہے۔

ان مرکبات کے منفرد مجموعوں کو الگ کر کے یہ درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کو لبلبے کا سرطان ہے یا نہیں اور اس کے نتائج صرف تین دن کے اندر عام معالج کو دستیاب ہو سکتے ہیں۔

فی الحال جن مریضوں میں لبلبے کے سرطان کا شبہ ہوتا ہے، انہیں سکین کے لیے یا مزید تحقیقات کے لیے ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے۔

پینکریاٹک کینسر یو کے کی سربراہ ڈیانا جُپ، جو اس تحقیق کے لیے 11 لاکھ پاؤنڈ فراہم کر رہی ہیں، نے کہا: ’یہ سانس کا ٹیسٹ لبلبے کے سرطان کی ابتدائی تشخیص میں انقلاب لا سکتا ہے۔ یہ بلاشبہ پچاس برسوں میں زندگی بچانے والی سب سے اہم پیش رفت ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگرچہ اس نئی ٹیکنالوجی کو ملک بھر کے معالجین کے ہاتھوں میں پہنچانے سے پہلے مزید کئی برس کی ترقی درکار ہے، تاہم اب ہزاروں نامعلوم تشخیص والے مریض اسے حقیقی دنیا میں بہتر بنانے میں مدد کریں گے۔

’یہ پہلا موقع ہے کہ لبلبے کے سرطان کے سانس کے ٹیسٹ نے اس پیمانے کی قومی طبی آزمائش میں جگہ بنائی ہے۔ یہ خود ایک حقیقی، ٹھوس امید کی علامت ہے۔‘

بقول ڈیانا: ’دہائیوں تک اس مہلک سرطان کو ناقابلِ حل چیلنج سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن ہم ممکنات کی سرحدوں کو مزید آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘

اس منصوبے کی قیادت کرنے والے امپیریل کالج لندن کے شعبہ سرجری و سرطان کے سربراہ پروفیسر جارج ہینا نے کہا:
’اگر سانس کے ٹیسٹ کے ابتدائی مرحلے سے حاصل ہونے والے نتائج کو نامعلوم تشخیص والے مریضوں کی آبادی میں درست ثابت کیا جا سکا تو اس میں طبی عمل اور لبلبے کے سرطان کی تشخیص کے طریقہ کار کو بڑی حد تک بدلنے کی صلاحیت موجود ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’آج اعلان کردہ مالی اعانت کا مطلب ہے کہ اب ہم مریضوں کے توثیقی مطالعے کے مرحلے میں تیزی سے آگے بڑھ سکتے ہیں، جو ہمارے لیے نہایت پرجوش اگلا قدم ہے۔ ہم اس بات کے منتظر ہیں کہ یہ ٹیسٹ سرطان کے شبے والے مریضوں کے اس گروپ میں کیسے کارکردگی دکھاتا ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت