اے آئی جلد وائس نوٹ سے گلے کے سرطان کی تشخیص کے قابل ہوگی

اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے محققین کا خیال ہے کہ اب صوتی پیغامات کو مصنوعی ذہانت کے ایک ایسے ٹول کی تربیت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو گلے کے زخموں کی شناخت کر سکے۔

سائنس دانوں کے مطابق مصنوعی ذہانت کو ان ’ووکل بائیو مارکرز‘ کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے مرض کی جلد اور کم تکلیف دہ تشخیص ممکن ہو سکے گی (فائل فوٹو/ اینواتو)

ایک نئی تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) یا اے آئی جلد ہی صرف ایک وائس نوٹ کی مدد سے یہ بتانے کے قابل ہو جائے گی کہ کسی مریض کو گلے کا سرطان ہے یا نہیں۔

سائنس دانوں نے ایسے مردوں کی آوازیں ریکارڈ کیں جن کے صوتی پردوں (vocal folds) میں خرابیاں تھیں اور ان کی بھی جن میں یہ خرابی نہیں تھی۔ صوتی پردوں میں خرابی نرخرے (Voice Box) کے سرطان کی ابتدائی علامت ہو سکتی ہے۔ سائنس دانوں نے ان آوازوں کی پچ، والیوم اور صفائی جیسی خصوصیات میں فرق پایا۔

اب ان کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ان ’ووکل بائیو مارکرز‘ کا پتہ لگانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے مرض کی جلد اور کم تکلیف دہ تشخیص ممکن ہو سکے گی۔

اوریگون ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے محققین کا خیال ہے کہ اب صوتی پیغامات کو مصنوعی ذہانت کے ایک ایسے ٹول کی تربیت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جو گلے کے زخموں کی شناخت کر سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے شمالی امریکہ کے 306 شرکا کی 12,523 وائس ریکارڈنگز استعمال کرتے ہوئے گلے کے سرطان میں مبتلا مردوں، گلے کے زخموں میں مبتلا مردوں اور صحت مند ووکل فولڈ والے مردوں کی آوازوں میں مخصوص فرق پایا، تاہم محققین کا کہنا تھا کہ خواتین میں اسی طرح کے امتیازی فرق کا پتہ نہیں چلا۔

اب وہ ایسے افراد کی مزید ریکارڈنگز اکھٹی کرنے کی امید کر رہے ہیں، جن کے گلے میں مخصوص زخم ہیں اور جن کے نہیں ہیں، تاکہ ٹولز کے استعمال کے لیے ایک بڑا ڈیٹا سیٹ بنایا جا سکے۔

برطانیہ میں ہر سال گلے کے سرطان کے 2000 سے زیادہ نئے کیسز سامنے آتے ہیں۔ اس کی علامات میں آواز میں تبدیلی شامل ہو سکتی ہے، جیسے آواز کا بھاری ہونا، سانس لیتے وقت سیٹی جیسی تیز آواز اور ایسی کھانسی جو طویل عرصے تک جاری رہے۔

ڈاکٹر فلپ جینکنز جو اس تحقیق کے مصنف ہیں، نے کہا کہ ’یہاں ہم یہ دکھاتے ہیں کہ اس ڈیٹا سیٹ کے ساتھ ہم ووکل بائیو مارکرز استعمال کر کے ایسے مریضوں کی آوازوں میں فرق کر سکتے ہیں، جن کے گلے میں زخم ہیں اور جن کے نہیں ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اس تحقیق سے گلے کے زخموں کو شناخت کرنے والے اے آئی ٹول کی طرف بڑھنے کے لیے ہم پیشہ ور افراد کی جانب سے مخصوص کردہ وائس ریکارڈنگز کے ایک اس سے بھی بڑے ڈیٹا سیٹ کا استعمال کرتے ہوئے ماڈلز کو تربیت دیں گے۔ اس کے بعد ہمیں یہ یقینی بنانے کے لیے سسٹم کا ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ خواتین اور مردوں کے لیے یکساں طور پر اچھی طرح کام کرتا ہے۔‘

انہوں نے پیش گوئی کہ ’آواز پر مبنی ہیلتھ ٹولز پہلے ہی آزمائشی مرحلے میں ہیں۔ میں اندازہ لگاتا ہوں کہ ہماری تحقیق پر عمل کرتے ہوئے بڑے ڈیٹا سیٹس اور طبی توثیق کے ساتھ، گلے کے زخموں کا پتہ لگانے کے لیے اس طرح کے ٹولز اگلے چند سال میں آزمائشی جانچ پڑتال میں داخل ہو سکتے ہیں۔‘

یہ بات امریکہ میں قائم کلِک لیبز کی تحقیق کے بعد سامنے آئی۔ لیبارٹری نے ایسا اے آئی ماڈل بنایا جو چھ سے 10 سیکنڈ کی وائس آڈیو سے یہ پہچاننے کی صلاحیت رکھتا تھا کہ آیا کسی شخص کو ٹائپ ٹو ذیابیطس ہے یا نہیں۔

اس تحقیق میں ذیابیطس کے شکار اور اس مرض سے محفوظ افراد میں فرق کرنے والی صوتی خصوصیات کی شناخت کے لیے 18 ہزار ریکارڈنگز کا تجزیہ شامل تھا۔ تحقیق سے خواتین کے لیے 89 فیصد اور مردوں کے لیے 86 فیصد درستی کی شرح کے ساتھ معلومات حاصل ہوئیں۔

جے سی کوف مین جو کلِک لیبز میں تحقیق کرنے والےسائنس دان ہیں، نے صحت کی دیکھ بھال میں اے آئی کی مدد سے کام کرنے والے وائس ٹولز کی مستقبل کی صلاحیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’مرض کا پتہ لگانے کے موجودہ طریقوں میں بہت زیادہ وقت، سفر اور لاگت صرف ہو سکتےہیں۔ آواز کی ٹیکنالوجی میں ان رکاوٹوں کو مکمل طور پر دور کرنے کی صلاحیت ہے۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی