خون کا یہ ٹیسٹ سرطان کی 50 سے زائد اقسام کا پتا چلا سکتا ہے

Galleri نامی ٹیسٹ خون میں موجود ڈی این اے کے وہ ذرات شناخت کرتا ہے جو سرطان کے خلیے خارج کرتے ہیں۔

چھ اکتوبر، 2023 کی اس تصویر میں ایک ڈاکٹر فلپائن کے صوبے الویلو میں مریض سے خون کا نمونہ لے رہا ہے (اے ایف پی)

50 سے زائد اقسام کے سرطان کی جانچ کے لیے تیار کردہ ایک جدید خون کے ٹیسٹ نے، جس کا فی الحال نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) جائزہ لے رہی ہے، تقریباً دو تہائی کیسز میں بیماری کی درست نشاندہی کی ہے۔

یہ Galleri نامی ٹیسٹ، جو سالانہ طور پر کرایا جا سکتا ہے، خون میں موجود ڈی این اے کے وہ ذرات شناخت کرتا ہے جو سرطان کے خلیے خارج کرتے ہیں، جو اکثر بیماری کی علامات ظاہر ہونے سے پہلے اس کی موجودگی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
 
امریکہ میں کیے گئے ایک بڑے ٹرائل 2 Pathfinder نے ظاہر کیا کہ یہ ٹیسٹ صحت مند افراد میں سرطان کے خدشے کو مؤثر طریقے سے رد کرنے اور بیماری کو ابتدائی اور قابلِ علاج مرحلے میں شناخت کرنے میں انتہائی مؤثر ہے۔
 
ٹرائل کے شرکا میں، جن کے خون میں ’کینسر سگنل‘ پایا گیا، 61.6 فیصد کو بعد ازاں سرطان کی تشخیص ہوئی۔
 
اہم بات یہ ہے کہ اس ٹیسٹ نے 92 فیصد کیسز میں اس عضو یا ٹشو کی درست نشاندہی کی جہاں سے سرطان کا آغاز ہوا تھا، جو مزید تشخیصی عمل میں وقت اور وسائل کی بچت کر سکتا ہے۔
 
نئے تشخیص شدہ سرطانوں میں سے نصف سے زائد (53.5 فیصد) مرحلہ اول یا دوم میں تھے، جب کہ دو تہائی سے زائد (69.3 فیصد) مرحلہ اول تا سوم میں شناخت کیے گئے۔
 
Galleri نے، جسے سرطان کے ٹیسٹوں کا holy grail کہا جا رہا ہے، ان 99.6 فیصد افراد میں بھی سرطان کے نہ ہونے کی درست تصدیق کی جنہیں بیماری لاحق نہیں تھی۔
یہ نتائج یورپین سوسائٹی فار میڈیکل آنکالوجی (ESMO) کانگریس، برلن میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
 
Grail کمپنی میں انٹرنیشنل بزنس اور بایوفارما کے صدر اور پہلے کینسر ریسرچ یو کے کے سربراہ رہنے والے سر ہارپال کمار نے نتائج کو متاثرکن قرار دیا۔
 
انہوں نے پی اے نیوز ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ہم واقعی بہت پرجوش ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ یہ کینسر کے علاج کے نتائج کو حقیقی معنوں میں تبدیل کرنے کی راہ میں ایک اور قدم ہے۔‘ 

 2Pathfinder تحقیق میں دیکھا گیا کہ Galleri ٹیسٹ کو حقیقی دنیا کے ماحول میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، خاص طور پر اُن معمول کے سکریننگ پروگرامز کے ساتھ جو چھاتی اور آنتوں کے سرطان کے لیے کیے جاتے ہیں۔

ٹرائل میں امریکہ اور کینیڈا کے ایسے افراد کو شامل کیا گیا جنہیں کوئی علامات نہیں تھیں۔ ان میں سے 23,161 افراد کا تجزیہ کیا گیا اور کم از کم 12 ماہ تک ان کا فالو اپ کیا گیا۔
 
نتائج سے ظاہر ہوا کہ معمول کے سکریننگ پروگراموں کے ساتھ Galleri شامل کرنے سے ایک سال کے اندر پائے جانے والے سرطانوں کی تعداد میں سات گنا سے زائد اضافہ ہوا۔
 
اس ٹیسٹ نے 216 افراد میں کینسر سگنل کا پتا لگایا، جن میں سے 133 میں سرطان کی تصدیق ہوئی۔
 
لہٰذا، جن افراد کے ٹیسٹ میں ’کینسر سگنل‘ ظاہر ہوا، ان میں سرطان کی تشخیص ہونے کا خدشہ 61.6 فیصد تھا۔
 
سر ہارپال نے پی اے کو بتایا ’ہم جاننا چاہتے تھے کہ یہ ٹیسٹ موجودہ سکریننگ کے مقابلے میں کیا اضافی فائدہ فراہم کرتا ہے۔
 
’اور سب سے اہم اور دلچسپ نتیجہ یہ ہے کہ اس نے دیگر تمام سکریننگ پروگرامز کے مجموعے کے مقابلے میں سات گنا زیادہ سرطانوں کی نشاندہی کی۔‘
 
ماڈلنگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ Galleri ٹیسٹ 50 سال کی عمر سے ہر سال ایک بار کرایا جائے تو مؤثر ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ اسی عمر سے سرطان کے کیسز میں تیزی سے اضافہ شروع ہوتا ہے۔

سر ہارپال نے کہا ’ہمارے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ٹیسٹ 50 سال سے زائد عمر کے لیے زیادہ لاگت مؤثر ہو گا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کچھ کم عمر افراد، مثلاً وہ جنہیں پہلے سرطان ہو چکا ہو یا جن میں اس بیماری کا جینیاتی رجحان ہو، وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مئی میں جریدے بی ایم جے اوپن میں شائع ہونے والی تحقیق میں پایا گیا کہ سرطان کے لیے سالانہ خون کا ٹیسٹ کرانے سے عام علاج کرانے والے مریضوں کے مقابلے میں پانچ سال کے اندر دیر سے تشخیص ہونے والے کیسز میں 49 فیصد اور اموات میں 21 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔

Grail کے صدر جوش آف مین نے کہا ’یہ نتائج انتہائی قائل کن ہیں کیونکہ Galleri سے شناخت کیے گئے تقریباً تین چوتھائی سرطان وہ ہیں جن کے لیے آج کوئی تجویز کردہ سکریننگ ٹیسٹ موجود نہیں۔‘
 
لندن میں انسٹی ٹیوٹ آف کینسر ریسرچ کے پروفیسر کلیر ٹرنبل نے ان نتائج پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ جاننے کے لیے مزید ڈیٹا درکار ہے کہ آیا Galleri جیسے ٹیسٹ واقعی سرطان سے اموات کی شرح میں کمی لاتے ہیں۔
 
ڈائریکٹر بارٹس کینسر انسٹی ٹیوٹ لندن پروفیسر نیتزان روزن فیلڈ نے کہا کہ نتائج ’متاثرکن‘ ہیں اور 62 فیصد کا تناسب ’حوصلہ افزا اور مضبوط ثبوت فراہم کرتا ہے کہ یہ ٹیسٹ محفوظ اور معلوماتی ہو سکتا ہے۔‘
 
انہوں نے کہا کہ اموات پر مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔ ’اہم بات یہ ہے کہ Galleri ٹیسٹ کے ذریعے اس تحقیق میں شناخت ہونے والے 50 فیصد سے زائد سرطان ابتدائی مراحل ( مرحلہ I-II) میں تھے اور ان میں سے 75 فیصد سے زیادہ ایسے تھے جن کے لیے عام سکریننگ کے آپشنز موجود نہیں۔‘
 
یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں مالیکیولر ڈائیگنوسٹکس کی پروفیسر پروفیسر انا شو نے کہا کہ نتائج کے مطابق کسی فرد کے مثبت ٹیسٹ آنے کی صورت میں سرطان ہونے کا امکان تقریباً 60 فیصد ہے۔
 
انہوں نے کہا ’دوسرے لفظوں میں، تقریباً آدھے کیسز میں ٹیسٹ غلط نتیجہ دیتا ہے جب یہ مثبت ظاہر ہوتا ہے۔‘
 
’یہ مایوس کن ہے کیونکہ یہ صرف معمولی طور پر بہتر ہے نسبتاً ایک سکے اچھالنے کے، اگرچہ موجودہ سکریننگ ٹیسٹوں کے مقابلے میں بہتر ہے جن میں اب بھی زیادہ تر مثبت نتائج غلط ثابت ہوتے ہیں۔‘
 
انہوں نے مشورہ دیا کہ موجودہ شرح شناخت کی بنیاد پر ممکن ہے کہ این ایچ ایس اسے لاگت کے لحاظ سے مؤثر نہ پائے۔
 
انہوں نے کہا کہ ٹیسٹ کی حساسیت ’کچھ عام سرطانوں کے لیے اچھی تھی (جہاں یہ 74 فیصد تھی)، لیکن دیگر کے لیے — جو مجموعی طور پر تمام سرطانوں کے نصف سے زائد ہیں — طبی حساسیت (40 فیصد) کمزور رہی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی صحت