چھاتی کا سرطان: ’پہلی بار وِگ پہنی تو عجیب لگا‘

لاہور کی رباب راشد چھاتی کے سرطان سے لڑ رہی ہیں۔ اس سے قبل ان کی والدہ بھی دو بار اسے شکست دے چکی ہیں۔

رباب کی والدہ (بائیں)   2006 اور 2016 میں دو بار کینسر کو شکست دے چکی ہیں (تصویر: رباب راشد)

’مجھے یہ معلوم تھا کہ کبھی نہ کبھی مجھے بھی کینسر ہوگا۔ میرے خاندان میں یہ بیماری موجود ہے، میری والدہ 2006 اور 2016 میں چھاتی کے سرطان کو دو مرتبہ شکست دے چکی ہیں۔ اس لیے جب مجھے معلوم ہوا تو میرے لیے کوئی بہت بڑا دھچکا نہیں تھا۔‘

یہ کہنا تھا 40 سالہ رباب راشد کا جو 2019 سے امریکہ میں مینجمنٹ اینڈ لیڈرشپ میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔

انہیں امریکہ پہنچے دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ انہیں چھاتی میں گلٹی محسوس ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں: ’مجھے اپنی والدہ کے تجربے سے یہ معلوم تھا کہ اپنا معائنہ کیسے کرنا ہوتا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ مجھے میموگرام اور الٹرا ساؤنڈ کروانا ہوگا۔‘

رباب نے فروری 2020 میں الٹرا ساؤنڈ کروایا تو معلوم ہوا کہ گلٹی دو سینٹی میٹرز کی ہے اور بے ضرر ہے۔ اس کے بعد کرونا کی وبا پھیل گئی اور امریکہ میں تمام غیر ضروری صحت کی سہولیات بند ہو گئیں، تو وہ اگست میں پاکستان واپس آ گئیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں میموگرام (چھاتی کا ایکس رے) اور الٹرا ساؤنڈ کروانا تھا، جو انہوں نے لاہور میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال سے کروایا۔ اس ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ ان کی گلٹی میں 95 فیصد کینسر کے امکانات ہیں۔

رباب نے امریکہ اور پاکستان ہونے والے ٹیسٹس کی رپورٹ ڈاکٹروں کو بھیج دی، جنہوں نے مزید ٹیسٹس کے لیے انہیں ون سٹاپ بریسٹ کلینک آنے کا کہا۔ انہوں نے بتایا کہ مزید ٹیسٹ کے نتائج کے بعد پانچ یا چھ ڈاکٹروں کا بورڈ بیٹھتا ہے، جو ان نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے بیماری کی نوعیت اور علاج کے طریقہ کار پر غور کرتا ہے اور پھر وہ مریض کو بلالیتے ہیں۔

رباب کو رواں سال مارچ میں ڈاکٹروں کے پینل نے بلایا۔ ان کے معالج ڈاکٹر مظہر تھے، جو ان کی والدہ کے سرطان کا بھی علاج کر چکے تھے۔ اس ملاقات میں انہیں معلوم ہوا کہ ان کا سرطان دوسرے سٹیج پر ہے اور یہ چھاتی سے نکل کر بغل کے لمف نوڈز میں جاچکا ہے۔ رباب کہتی ہیں: ’مجھے بہت زیادہ دھچکا نہیں لگا کیونکہ 2006 میں جب میں لندن میں پڑھ رہی تھی تو میری والدہ کو کینسر تشخیص ہوا۔‘

اپنی والدہ کے ساتھ ڈاکٹر مظہر کے پاس جانے اور اس وقت ہونے والی گفتگو کو رباب نے کچھ یوں یاد کیا: ’اُن دنوں شوکت خانم والوں نے جینیاتی ٹیسٹنگ بھی شروع کی ہوئی تھی۔ یہ جاننے کے لیے کہ آپ کے جینز میں کینسر ہونے کے امکانات ہیں یا نہیں۔ میں نے تب ڈاکٹر سے وہ ٹیسٹ کرنے کا کہا، تاہم انہوں نے مجھے منع کر دیا، لیکن نہ جانے کیوں انہوں نے مجھ سے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ آپ دونوں بہنوں میں سے آپ کو زندگی کے کسی حصے میں جا کر کینسر ہوگا۔‘ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ میرے لاشعور میں یہ بات تھی کہ مجھے کبھی نہ کبھی کینسر ہوگا اور گذشتہ سال سے تو میں ویسے ہی دماغی طور پر تیار تھی۔‘

حوصلہ اور ہمت

رباب کہتی ہیں کہ اس بیماری سے لڑنے کے لیے جہاں آپ کو خود باہمت ہونا پڑتا ہے، وہیں آپ کا سوشل سپورٹ سسٹم بھی مدد فراہم کرتا ہے اور انہیں خوش قسمتی سے ایسے ہی لوگ ملے۔

کسی کینسر کے مریض کو پوچھیں کہ انہیں کینسر کے علاج میں کس چیز سے سب سے زیادہ ڈر لگتا ہے تو وہ ہے کیموتھراپی سے بال جھڑنا۔ عموماً بال پہلی کیمو کے تین سے چار ہفتوں کے بعد گرنا شروع ہوتے ہیں۔ وہ گچھوں کی صورت میں اترتے ہیں اور چند روز میں آپ کے سر اور جسم کے تمام بال اتر جاتے ہیں۔

اپنے تجربے کی بات کرتے ہوئے رباب نے بتایا: ’مجھے یہ معلوم تھا کہ باہر کے ملکوں میں وِگ مل جاتی ہے لیکن ڈاکٹر مظہر نے مجھے بتایا کہ ابھی پاکستان میں ایسا کوئی سسٹم نہیں ہے۔ اس کے بعد مجھے ایک دوست سے معلوم ہوا کہ کراچی میں ’ہیئر ٹو ہیلپ‘ کے نام سے ایک ادارہ رضاکارانہ طور پر یہ کام کر رہا ہے۔ میں نے پہلی کیمو تھراپی کے بعد ہی ان سے رابطہ کیا اور انہوں نے مجھے دو دن کے اندر اندر وِگ بھیج دی۔‘

’مجھے یاد ہے کہ عید تھی اور انہوں نے مجھے وِگ بھیج کر فون کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں عید وِگ پہن کر مناؤں۔ اس وقت تک میرے اتنے بال اترے نہیں ہوئے تھے، دوسرا میری طبعیت بہت خراب تھی اور ساتھ ہی کووڈ بھی تھا تو کسی سے ملنا بھی نہیں تھا سو میں نے وہ وِگ رکھی رہنے دی۔‘

اس وِگ کی ضرورت انہیں ساتویں کیموتھراپی کے بعد پیش آئی۔ وہ بیمار ہونے کی وجہ سے گھر سے زیادہ نہیں نکلتی تھیں اور صرف ہسپتال ہی جاتی تھیں۔ پھر انہوں نے ہسپتال جانے کے لیے وِگ پہننا شروع کردی۔ ’پہلی بار جب پہنی تو بہت ہی عجیب لگی۔ میں وِگ کو سیلون لے گئی وہاں جا کر میں نے اسے رنگ کروایا، تھوڑی اس کی کٹنگ کروائی، اس کے بعد میں نے وہ وِگ پہننا شروع کی۔ جب میں وہ وِگ پہن کر شوکت خانم جاتی تو کوئی بھی مجھے دیکھ کر یہ نہیں مانتا تھا کہ میں کینسر کی مریضہ ہوں کیونکہ اس کی پہلی علامت ہی یہ ہوتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے سر کے بال دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ کس کے بال ہیں اور کس کے جا چکے ہیں یا کس کے ناخن کتنے کالے ہو چکے ہیں، اسی سے ہمیں معلوم ہوجاتا ہے کہ کس کی کتنی کیموتھراپی ہوئی ہیں۔‘

جب رباب کا علاج شروع ہوا تو ڈاکٹر نے انہیں آٹھ کیموتھراپیز کا شیڈول دیا، جو انہیں ہر تین تین ہفتے کے بعد لگنی تھیں۔ رباب کہتی ہیں کہ ان کے کچھ دوست اور کزن جو امریکہ میں ڈاکٹر ہیں، انہوں نے مشورہ دیا کہ وہ چونکہ ابھی جوان ہیں اور ورزش بھی بہت کرتی ہیں اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ اپنی کیموتھراپی کو ہر دو ہفتے کے بعد لگوائیں۔ ’کینسر کے علاج میں سب سے زیادہ تکلیف دہ کیموتھراپی ہوتی ہے۔ میں نے چونکہ اپنی والدہ کو دیکھا ہوا تھا اس لیے مجھے معلوم تھا کہ اس میں کیا ہوگا۔ کیموتھراپی جہاں آپ کے کینسر کے خلیوں کو مارتی ہے وہیں وہ آپ کے جسم میں موجود دیگر خلیوں کو بھی مار دیتی ہے۔ جتنی دیر میں آپ کے نئے خلیے بنتے ہیں، آپ کو دوسری کیمو لگنے کا وقت ہو جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رباب کے کہنے پر ان کے ڈاکٹر نے انہیں ہر دو ہفتے کے وقفے سے کیمو لگانی شروع کر دی۔ یہ وقت ان کے لیے بہت مشکل تھا۔ کیمو کے ردعمل میں متلی ہوتی ہے، الٹیاں آنا یا ڈائریا ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی زبان پر، گلے کے اندر یہاں تک کہ خوراک کی نالی تک میں چھالے نکل آتے ہیں اور ذائقے کی حس چلی جاتی ہے۔

رباب نے بتایا: ’جب میری کیموتھراپی ہو رہی تھی تو میرے والد ساتھ جاتے تھے۔ کووڈ کی وجہ سے تب ہی مریض کے ساتھ کسی کو آنے کی اجازت تھی اگر مریض خود چل نہیں سکتا یا وہ وہیل چیئر پر ہو، ورنہ کسی کو اجازت نہیں تھی اسی لیے میرے والد ساتھ جاتے تو وہ وہاں مسجد میں بیٹھے رہتے تھے۔‘

کیمو کے چھ راؤنڈز پورے ہونے کے بعد ڈاکٹر نے رباب کو بتایا کہ ان کی گلٹی کا سائز چھوٹا ہو رہا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ رباب کے جسم کی برداشت بہت کم ہو چکی ہے اور انہیں کیمو کے درمیان وقفے کو لمبا کرنا چاہیے، مگر انہوں نے منع کر دیا۔  

تاہم پھر کچھ ایسا ہوا کہ انہیں اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ ساتویں کیمو کے بعد انہیں بخار ہوگیا اور انہیں ہسپتال کی ایمرجنسی میں داخل ہونا پڑا جہاں معلوم ہوا کہ ان کے جسم میں پانی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ’میری طبعیت اتنی خراب ہوئی کہ میں نے سوچ لیا کہ میں اب اسے اور برداشت نہیں کر سکتی۔ مجھے اپنی امی کا بھی یاد تھا کہ انہیں بھی آٹھ کیمو لگنی تھی لیکن وہ صرف سات ہی برداشت کر پائیں، اسی لیے میں نے ڈاکٹر مظہر سے کہا کہ وہ میری آٹھویں کیمو نہ کریں۔‘

ان کے آپریشن کے لیے تاریخ لے لی گئی مگر پھر انہوں نے آٹھویں کیمو لگوانے کے کچھ دن بعد آپریشن کروانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ کینسر ان کے 20  میں سے نو لمف نوڈس (لمف غدود) تک پھیل چکا تھا اور ان کے ٹیسٹ، سائز اور حجم دیکھنے کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ کینسر دوسرے نہیں بلکہ تیسرے سٹیج پر تھا۔ ’اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹرنے مجھے بتایا ہے کہ مجھے 20 مرتبہ ریڈیو تھراپی کروانی ہوگی۔‘

رباب اب اپنے علاج کے اس مرحلے کے لیے خود کو بہادری سے تیار کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر نے انہیں 20 مارچ 2022 سے پہلے امریکہ واپس جانے سے منع کیا ہے۔  

رباب کے خیال میں کینسر کے مرض میں مبتلا شخص سے زیادہ اس کا خاندان مشکل سے گزر رہا ہوتا ہے۔ ’اس کا تجربہ مجھے اپنی امی کے وقت بھی ہوا تھا۔ لیکن میری والدہ نے دونوں مرتبہ انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ میرے کینسر کے علاج کے دوران نہ میں نے انہیں یہ تاثر دیا کہ مجھے بہت تکلیف ہے نہ انہوں نے ایسا پریشانی کا کوئی تاثر دیا لیکن اب وہ کہتی ہیں کہ میری بیماری نے انہیں آدھا کر دیا ہے۔‘

چھاتی کے سرطان کی تشویش ناک شرح

پاکستان میں گذشتہ 18 برس سے چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگاہی پھیلانے اور ان مریضوں کی مدد کرنے والی تنظیم ’پنک ربن‘ کے بانی اور سی ای او عمر آفتاب کا کہنا ہے کہ تحقیق سے حاصل کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی شرح پورے ایشیائی خطے میں سب سے زیادہ ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’ہر نو میں سے ایک خاتون میں اس سرطان کے ہونے کے امکان ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت ایک کروڑ خواتین میں چھاتی کا کینسر ہونے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ پورے پاکستان میں چھاتی کے سرطان کی شرح دیگر اقسام کے سرطانوں کی نسبت 38.5 فیصد ہے۔‘

عمر آفتاب کہتے ہیں کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں 70 فیصد خواتین تیسرے سٹیج کے کینسر کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس آتی ہیں، جس کی بڑی وجہ چھاتی کے سرطان کے بارے میں بات کرنے کو ممنوع سمجھنا، علامات کو سنجیدگی سے نہ لینا، یا انہیں نظر اندازکرنا ہے۔

انہوں نے کہا: ’دنیا میں چھاتی کے کینسر کی اوسط عمر 55 سال ہے لیکن پاکستان میں یہ عمر 35 سال ہے۔ لیکن گذشتہ پانچ برس میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ نوجوان بچیاں جن کی عمر 17، 18 یا 19 برس ہے وہ چھاتی کے سرطان کے ساتھ رپورٹ ہو رہی ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ غذا ہے۔ ’جو نئی تحقیق آرہی ہیں ان کے مطابق طرز زندگی میں تبدیلی سے سرطان کی بیماری کے امکان کو 40 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔‘

ان کے مطابق دنیا میں بہت سے ایسے اجزائے ترکیبی، پریزرویٹیو، کھانوں کے رنگ وغیرہ ہیں جو کینسر کا سبب بنتے ہیں، جنہیں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے تحقیق کے بعد ممنوع قرار دے دیا ہے، لیکن پاکستان میں ان کا استعمال کیا جارہا ہے۔

’دوسری جانب کچھ ایسی غذائیں ہیں جن میں سٹیرائڈز کا استعمال کیا جاتا ہے جیسے مرغی یا بکرا کہ وہ جلدی بڑا ہو جائے یا گائے کہ وہ زیادہ دودھ دے۔ یہ سٹیرائڈز انسانوں کی صحت خاص طور پر خواتین کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں۔‘

عمر آفتاب کہتے ہیں کہ خواتین میں یہ غذائیں ہارمونز میں عدم توازن (ہارمونل امبیلینس) پیدا کرتی ہیں۔ ’چھوٹی عمر کی بچیوں میں آج کل ہارمونل مسائل بہت زیادہ آرہے ہیں۔ ہارمونل امبیلینس براہ راست آپ کے ایسٹروجن لیول پر اثر انداز ہوتا ہے اور ایسٹروجن کا تعلق براہ راست چھاتی کے سرطان سے ہے۔‘

عمر آفتاب کہتے ہیں مغربی ممالک میں موٹاپا ضرور ہے لیکن وہاں وہ مضر غذائیں یا اجزائے ترکیبی جو کینسر کا سبب بنتے ہیں، ان کا استعمال ممنوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو چیزیں وہاں ممنوع ہیں وہ تیسری دنیا کے ممالک میں اب تک استعمال ہو رہی ہیں۔

عمر آفتاب کا کہنا ہے کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ اگر عورت اپنے بچے کو خود دودھ پلاتی ہے تو اسے چھاتی کا سرطان نہیں ہوتا لیکن اب ہمارے پاس چھوٹی بچیاں بھی اس سرطان کے ساتھ آرہی ہیں جن کی شادیاں بھی نہیں ہوئیں۔ ’ہاں یہ ضرور ہے کہ شادی شدہ خواتین جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ان میں تین سے پانچ فیصد تک کینسر ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کہ بچے کو اپنا دودھ پلانے والی خاتون کو چھاتی کا سرطان کبھی نہیں ہوتا۔‘

عمر آفتاب کے بقول: ’دنیا میں کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں کینسر کی شرح ہماری طرح زیادہ ہے لیکن اموات کی شرح ہم سے بہت کم ہے کیونکہ وہاں بیماری کی تشخیص جلد ہو جاتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یورپ میں جلد تشخیص کی وجہ سے کینسر کی بیماری سے صحت یاب ہونے کی شرح 95 فیصد ہے۔ ’ہمارے ہاں کینسر زیادہ ہے اور اس کے ساتھ بہت سی ایسی توہمات جڑیں ہیں اور ہمارے پدرسری معاشرے میں خواتین کی صحت خاص طور پر ان کی جنسی صحت کے حوالے سے بات کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ ہمارے ہاں تو بڑے شہروں میں خواتین کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اپنا معائنہ کیسے کرنا ہے تو دیہاتوں میں تو حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں۔ ’اندرون سندھ میں اگر کسی خاتون کو چھاتی کا سرطان ہو جائے تو لوگ کہتے ہیں کہ جادو ہوا ہے، اندرون پنجاب میں اس کے سرطان کو اس کے کیے ہوئے کسی غلط کام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین