گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے کے دور افتادہ گاؤں ہوشے سے تعلق رکھنے والی نوجوان کوہ پیما آمنہ حنیف اور صدیقہ حنیف اپنے دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج پاکستان میں خواتین کی کوہ پیمائی کی پہچان بن چکی ہیں۔
ہوشے کا شمار دنیا کے ان چند مقامات میں ہوتا ہے جہاں عالمی شہرت یافتہ پورٹرز اور کوہ پیما پیدا ہوئے۔آمنہ اور صدیقہ کے خاندان نے بھی اس ورثے کو آگے بڑھایا۔ ان کے دادا لٹل کریم ایک عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما رہے ہیں جنہوں نے دنیا بھر کی مہمات میں حصہ لیا۔
ہوشے جیسے دور دراز علاقے کی خواتین کے لیے کوہ پیمائی کا انتخاب آسان نہیں، لیکن یہ دونوں بہنیں اپنے دادا کے نقش قدم پر چل نکلیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا:’ان (دادا) کی کہانیاں سن کر ہی ہم نے خواب دیکھے کہ ایک دن ہم بھی پہاڑوں کی بلندیوں کو چھوئیں گی۔‘
رواں برس اکتوبر میں ان دونوں بہنوں نے اپنے دادا لٹل کریم پر بننے والی فلم ’کریم کے نقشِ قدم‘ کی بین الاقوامی ریلیز کی تقریب میں خصوصی شرکت کی۔ اس تقریب نے نہ صرف انہیں نئی حوصلہ افزائی دی بلکہ عالمی سطح پر ان کا تعارف بھی مضبوط کیا۔
پاکستان واپسی پر صدیقہ نے کہا: ’دادا کی زندگی پر بننے والی فلمیں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ ان کے کارنامے دیکھ کر ہمیں اپنی ذمہ داری اور بھی بڑھتی دکھائی دیتی ہے۔‘
آمنہ اور صدیقہ پاکستان اور گلگت بلتستان کا نام مزید روشن کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ وہ نہ صرف عالمی سطح پر نمایاں چوٹیوں کو سر کریں بلکہ خواتین کے لیے کوہ پیمائی کی تربیتی اکیڈمی قائم کریں اور اپنی کامیابیوں کے ذریعے نئی نسل کو اس شعبے میں لائیں۔
صدیقہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر حوصلہ جواں ہو اور گھر والوں کا ساتھ ہو تو دنیا میں کوئی راستہ مشکل نہیں رہتا۔
بقول صدیقہ: ’میرے خاندان کی رگوں میں پہاڑوں سے محبت دوڑتی ہے۔ یہ صرف شوق نہیں، ہماری میراث ہے۔ میرے والد نے ہمیں بچپن سے ہی سپورٹ کیا اور یہی اعتماد مجھے آج یہاں تک لایا ہے۔‘
آمنہ حنیف اب تک پاکستان کی آٹھ چوٹیوں پر سبز ہلالی پرچم لہرا چکی ہیں اور 2018 میں کوہ پیمائی کے آغاز کے بعد سے وہ اب تک سپین، ایران اور نیپال سمیت کئی انٹرنیشنل سمٹ بھی کر چکی ہیں، جن میں ان کی چھوٹی بہن صدیقہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔
صدیقہ اور ان کی بہن آمنہ حنیف نے حال ہی میں سپین میں ایک 5300 میٹر کی بلند چوٹی سر کی۔ یہ ایک بین الاقوامی ایکسپیڈیشن تھی جس میں پاکستان سمیت افغانستان، تاجکستان، نیپال، انڈیا اور امریکہ کے کو پیما شامل تھے۔
یہ صدیقہ کا پہلا انٹرنیشنل ٹور تھا اور اس میں شاندار کامیابی نے انہیں جنوبی ایشیا کی نمایاں خواتین کوہ پیماؤں میں شامل کر دیا۔
یہ دونوں بہنیں نہ صرف پہاڑ سر کرتی ہیں بلکہ پاکستان اور گلگت بلتستان میں کوہ پیمائی، ماحولیات اور خواتین کے کردار سے متعلق آگاہی بھی دیتی ہیں۔ وہ مختلف سکولز، کالجز، اداروں اور فورمز پر جا کر نوجوانوں، خصوصاً لڑکیوں کو انسپائر کرتی ہیں۔
بقول صدیقہ: ’ہماری سوسائٹی میں کھیلوں میں خواتین کے لیے اتنی سپورٹ نہیں ہوتی۔ لیکن اگر آپ میں جذبہ ہو تو راستے خود کھلتے جاتے ہیں۔‘
ان کا پیغام بہت واضح ہے: ’دنیا میں کوئی بھی چیز ناممکن نہیں۔ اگر آپ چاہیں تو صرف پہاڑ نہیں بلکہ آسمان کی بلندی کو بھی چھو سکتی ہیں۔ بس حوصلہ رکھیں، محنت کریں اور اپنے آپ پر یقین رکھیں۔‘