تہران میں خواتین موٹر سائیکل سوار، سماجی تبدیلی کی علامت

ایران کے قدامت پسند معاشرے میں خواتین موٹر سائیکل سواروں کی بڑھتی تعداد ایک نمایاں سماجی تبدیلی کی علامت بن رہی ہے۔

ایران کے قدامت پسند معاشرے میں جہاں طویل عرصے تک موٹر سائیکل چلانا مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا رہا، وہاں حالیہ عرصے میں سڑکوں اور چوراہوں پر رنگ برنگے ہیلمٹ پہنے خواتین موٹر سائیکل سواروں کی بڑھتی تعداد ایک نمایاں سماجی تبدیلی کی نشاندہی کر رہی ہے۔

49  سالہ مریم غلیچ، جو آج ایک مستند موٹر سائیکل انسٹرکٹر ہیں، بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے 15 برس قبل موٹر سائیکل چلانا سیکھنا شروع کیا تو انہیں اپنے زنانہ کپڑوں اور لائسنس نہ ہونے کی وجہ سے جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے رات کے وقت تہران کی خالی سڑکوں پر پریکٹس کرنا پڑتی تھی۔

مریم غلیچ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’یہ میرا شوق تھا، مگر ایران میں طویل عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ موٹر سائیکل صرف مردوں کے لیے ہے۔‘

آج وہ ایران کی موٹر سائیکلنگ اور آٹوموبائل فیڈریشن سے وابستہ ایک مصدقہ انسٹرکٹر ہیں اور اب تک سینکڑوں خواتین کو تربیت دے چکی ہیں۔ ان کے مطابق حالیہ مہینوں میں خواتین کی جانب سے موٹر سائیکل چلانے کی تربیت لینے کا رجحان نمایاں طور پر بڑھا ہے، خواہ وہ شہری ٹریفک ہو یا ریسنگ۔

ان کے بقول: ’میں یہ ثابت کرنا چاہتی تھی کہ خواتین بھی اس میدان میں کامیاب ہو سکتی ہیں، اب معاشرتی رویے تیزی سے بدل رہے ہیں۔ پہلے یہ بالکل قابل قبول نہیں تھا، مگر اب خاندان بھی اسے قبول کر رہے ہیں۔‘

لائسنس اب بھی سب سے بڑی رکاوٹ

اگرچہ خواتین موٹر سائیکل سواروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، مگر لائسنس کا مسئلہ اب بھی ایک بڑی قانونی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ ایران کے ٹریفک قوانین میں خواتین پر موٹر سائیکل چلانے کی صریح پابندی موجود نہیں، تاہم عملی طور پر خواتین کو موٹر سائیکل لائسنس جاری نہیں کیے جاتے۔

43  سالہ فیشن ڈیزائنر نیلوفر، جو حال ہی میں غلیچ کے کورس میں شامل ہوئیں، کہتی ہیں کہ بغیر لائسنس موٹر سائیکل چلانا شدید قانونی خطرہ ہے۔

ان کے بقول: ’اگر کوئی خاتون حادثے کا شکار ہو جائے تو چاہے قصور اس کا نہ ہو، قانونی طور پر ذمہ داری اسی پر ڈال دی جاتی ہے۔‘

حکومتی سطح پر موقف مختلف نظر آتا ہے۔ حکومت کی ترجمان فاطمہ مہاجرانی کے مطابق خواتین کے موٹر سائیکل چلانے پر ’کوئی قانونی پابندی نہیں‘۔ جبکہ ستمبر میں ایران کے ٹریفک پولیس سربراہ تیمور حسینی نے بھی کہا تھا کہ پولیس کو قانون کی مذہبی یا کسی اور بنیاد پر من مانی تشریح کا اختیار نہیں۔

تاہم بعض قدامت پسند حلقے اب بھی اسلامی لباس کے ضابطے کو خواتین کے لیے رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔ سپریم کونسل آف کلچرل ریولوشن کے رکن عبداللہ حسین خسروپناہ کے مطابق ’بغیر حجاب یا نامناسب لباس میں موٹر سائیکل چلانا شریعت کے خلاف ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدلتا سماج، محتاط آزادی

مریم غلیچ کے مطابق ماضی میں خواتین رائیڈرز کو مقابلوں کے دوران لمبے گاؤن پہننے پر مجبور کیا جاتا تھا جو سواری میں رکاوٹ بنتے تھے تاہم وقت کے ساتھ حالات میں کچھ نرمی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اگر پولیس موٹر سائیکل ضبط بھی کرے تو معاملہ جلد نمٹا دیا جاتا ہے۔

ایران میں خواتین گذشتہ برسوں میں سماجی پابندیوں کو چیلنج کرتی آ رہی ہیں اور یہ رجحان ستمبر 2022 میں مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد مزید تیز ہوا۔

33  سالہ بیوٹی سیلون کی مالک مونا ناصحی، جنہوں نے رواں سال موٹر سائیکل چلانا شروع کیا، بتاتی ہیں کہ اگرچہ پولیس کا رویہ نسبتاً نرم ہے، مگر خوف اب بھی موجود ہے۔

انہوں نے کہا: ’ہم نے سنا ہے کہ پولیس خواتین کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرتی، مگر پھر بھی ڈر لگا رہتا ہے۔‘

53  سالہ نائرہ چتسازیاں، جنہوں نے حال ہی میں موٹر سائیکل خریدی، کہتی ہیں کہ لائسنس کے علاوہ ان کے تمام کاغذات مکمل ہیں۔ ’موٹر سائیکل رجسٹرڈ ہے، انشورنس بھی ہے، تو پولیس کے پاس اعتراض کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین