کراچی سے گلگت کے پہاڑوں تک بچوں کے ہمراہ موٹر سائیکل پر سفر

یہ کہانی ہے کراچی سے تعلق رکھنے والے شرجیل خان، ان کی اہلیہ فرحت اور ان کے دو بچوں پانچ سالہ سالار اور چار سالہ شفا  کی، جنہوں نے اپنی موٹر سائیکل پر پاکستان کے سب سے خوبصورت، مگر دشوار گزار علاقے گلگت بلتستان کا سفر کیا۔

جب ایک عام سا دن ایک غیر معمولی سفر میں بدل جائے، تو سمجھ لیجیے کہ کہانی کچھ خاص ہے۔ کراچی کی ایک فیملی نے بھی وہ کر دکھایا، جو شاید بہت سے لوگ صرف سوچتے ہیں، یعنی موٹر سائیکل پر اپنے چھوٹے بچوں کے ہمراہ ہزاروں کلومیٹر کا سفر۔

یہ کہانی ہے کراچی سے تعلق رکھنے والے شرجیل خان، ان کی اہلیہ فرحت اور ان کے دو ننھے مسافروں پانچ سالہ سالار اور چار سالہ شفا  کی، جنہوں نے اپنی موٹر سائیکل پر پاکستان کے سب سے خوبصورت، مگر دشوار گزار علاقے گلگت بلتستان کا سفر کیا۔

شرجیل خان کو بچپن ہی سے قدرت کے نظاروں سے عشق رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شرجیل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ اپنے حسین ایڈونچر کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں سیاحت کا ’جنون‘ ہے۔ شادی سے پہلے ہی وہ کراچی کی گلیوں سے لے کر پاکستان کے شمالی علاقوں تک سولو (تنہا) سفر کر چکے تھے اور شادی کے بعد بھی اس شوق کو ترک نہ کیا۔

 ان کا ماننا ہے کہ شادی کے بعد خواب ختم نہیں ہوتے۔ بقول شرجیل: ’لوگ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد خواب ختم ہو جاتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ خواب شریکِ سفر مانگتے ہیں۔‘

شرجیل نے اپنی بیوی کو بھی آہستہ آہستہ اپنے شوق میں شامل کیا۔ پھر ایک دن اچانک ایک منصوبہ بنایا ایک لمبے سفر کا۔ کراچی سے لاہور، لاہور سے اسلام آباد اور پھر داسو، چلاس کے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے گلگت بلتستان کا سفر، وہ بھی دن رات موٹر سائیکل پر۔

انہوں نے بتایا: ’ایک دن دونوں نے بیٹھے بیٹھے فیصلہ کیا اور یوں ایک نیا سفر شروع ہوا۔ راستے میں موسم بھی بدلا، راستے تنگ ہوئے، دھول مٹی اور تھکن نے آزمائش لی، مگر نہ کوئی شکوہ، نہ کوئی تھکن، صرف خوشی اور حیرت ساتھ رہی۔‘

چھوٹے مسافر، بڑے دل

یہ سفر دو بڑوں کا نہیں تھا، ان کے ساتھ ان کے دو بچے سالار اور شفا بھی تھے۔ جن کے چھوٹے چھوٹے چہروں پر بڑے خواب اور آنکھوں میں بچپن کی چمک تھی۔

اپنے سفر کی داستان کو جاری رکھتے ہوئے شرجیل نے بتایا: ’بچوں کے ساتھ اس قدر طویل اور مشکل سفر کوئی معمولی کام نہیں تھا، مگر حیرت انگیز طور پر دونوں بچے اس سفر میں نہ صرف پرامید بلکہ پراعتماد بھی نظر آئے۔

’ہر منظر، ہر موڑ، ہر وادی ان کے لیے ایک نیا جہان تھا۔ میں چاہتا تھا کہ میرے بچے قدرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور سیکھیں کہ زندگی کی خوبصورتی صرف کمفرٹ زون (آرام دہ ماحول) میں نہیں، بلکہ چیلنجز میں ہے۔‘

فرحت کے لیے یہ پہلا ایڈونچر تھا۔ ایک سادہ، پرسکون زندگی گزارنے والی خاتون کے لیے یہ سب کچھ نیا تھا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں اپنے شوہر اور بچوں کے جذبے کو دیکھ کر اللہ پر بھروسہ کرتی گئی اور یقین مانیے، ہر بلند پہاڑ، ہر بہتا دریا، ہر برف پوش وادی ایک نئی توانائی دیتا تھا۔ ہم جب دریا دیکھتے تو بچوں کی خوشی میں پھولے نہ سماتے، برف دیکھ کر وہ حیران ہو جاتے کہ یہ کیا ہے؟‘

فرحت شرجیل  بتاتی ہیں کہ بچوں نے راستے میں کبھی سفر کو بوجھ محسوس نہیں ہونے دیا۔ ’کہیں میں ڈر جاتی تو بچوں کی مسکراہٹ اور شوہر کی ہمت مجھے سب کچھ اللہ پر چھوڑنے پر مجبور کر دیتی۔ بس پھر بسم اللہ کہتی اور آگے بڑھ جاتی۔‘

چندہ ویلی: ہمت کی اصل آزمائش

اس خاندان کے سفر کا سب سے خطرناک موڑ اس وقت آیا، جب انہوں نے چندہ ویلی کا رخ کیا۔ یہ وہ وادی ہے، جس کے راستے سے ایک وقت میں صرف ایک گاڑی گزر سکتی ہے۔ ایک طرف پہاڑ، دوسری طرف کھائی اور بیچ میں کیچڑ، پتھر، پانی کا بہاؤ اور گھنے بادل۔

شرجیل کے مطابق: ’ایک جگہ بائیک کا اگلا پہیہ کیچڑ میں پھنس گیا۔ لمحے بھر کو ایسا لگا جیسے سفر یہیں تھم جائے گا، لیکن ہم نے وہ منزل بھی پار کی اور چندہ ویلی کے ٹاپ پر گئے۔

’یہ صرف خطرناک نہیں، حیرت انگیز تھا۔ جیسے زندگی ایک فلم بن گئی ہو، ہم کردار بنے ہوں۔راستے میں کئی بار تھکن حاوی ہوئی، کئی بار موسم نے رخ بدلا اور کئی بار راستے نے ہمت آزمایا۔ لیکن ہر مشکل، ہر رکاوٹ ایک نئی یاد میں بدل گئی۔‘

تیاری مکمل، اعتماد بھرپور

شرجیل خان نے بتایا کہ انہوں نے اپنی پوری تیاری سے سفر کا آغاز کیا تھا اور اپنی سواری کو محفوظ انداز میں تیار کیا تھا۔ بائیک پر ہائی وولٹیج روشنیاں، چارجنگ نظام، مکمل طبی سامان، گرم کپڑے، ایندھن کے ذخیرے، یہاں تک کہ ذاتی دفاع کے لیے ہلکے آلات بھی پاس تھے۔

’ہم نے صرف خواب نہیں دیکھا، اس کی مکمل تیاری بھی کی۔ ہم رکے، سانس لی، چائے پی، بچوں کو سیر کروائی اور پھر نئے جذبے کے ساتھ آگے بڑھے۔‘

سوشل میڈیا پر شرجیل خان کی فیملی کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا: ’ہم اپنے سفر کے لمحات سوشل میڈیا پر شیئر کرتے رہے۔ کچھ لوگوں نے سراہا، کچھ نے تنقید کی، خاص طور پر بچوں کے ساتھ سفر پر۔ ہم نے کسی تنقید کا جواب نہیں دیا، کیونکہ ہمیں یادیں بنانی تھیں، دلیلیں نہیں۔‘

اس خاندان کا ارادہ ہے کہ وہ پاکستان کے بعد دنیا کو بھی دیکھیں اور وہ بھی اسی بائیک پر۔

فرحت کہتی ہیں: ’زندگی بہت قیمتی ہے۔ ہمیں سب کچھ ایک ساتھ نہیں ملتا، مگر جو کچھ ہمارے پاس ہے، اس میں بھی ہم خوشی تلاش کر سکتے ہیں۔ ہم نے دو پہیوں پر زندگی کے سب سے خوبصورت لمحے جیئے، یہ کہانی صرف سفر کی نہیں، ہمت، محبت اور اعتماد کی ہے۔ یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر آپ کے پاس حوصلہ ہے، تو آپ کے بچوں کو یادگار بچپن دینے کے لیے صرف ایک بائیک ہی کافی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی