غیر تعلیم یافتہ بلوچ خاتون سینکڑوں بیروزگار خواتین کا سہارا

بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی بی بی سکینہ خواتین کے ملبوسات پر ثقافتی کشیدہ کاری کر کے سینکڑوں خواتین کو روزگار فراہم کر رہی ہیں۔

بلوچستان کے ضلع خضدار سے تعلق رکھنے والی باہمت خاتون بی بی سکینہ خواتین کے ملبوسات پر بلوچ ثقافتی کشیدہ کاری کر کے سینکڑوں خواتین کو روزگار فراہم کر رہی ہیں۔

وہ خود ناخواندہ ہیں مگر درجنوں تعلیم یافتہ طالبات اور بیروزگار خواتین کے ہنر اور کاروبار کو دنیا بھر سے جوڑ دیا ہے۔

روایتی بلوچ ملبوسات متعدد ڈیزائنز میں تیار کیے جاتے ہیں، جن پر مقامی خواتین مہارت کے ساتھ ہاتھ کی کڑھائی اور دست کاری کے ذریعے کام کرتی ہیں۔ ایک سوٹ کی تکمیل میں ایک ماہ سے لے کر ایک سال تک کا وقت لگ جاتا ہے اور اگر کشیدہ کار زیادہ ہوں تو کم سے کم ایک ماہ میں بھی سوٹ تیار ہوجاتا ہے۔

ایک ثقافتی سوٹ کے مختلف حصوں پر علیحدہ ماہر خواتین کام کرتی ہیں، اسی لیے ایک آرڈر سے درجنوں خواتین کو آمدنی ہوتی ہے۔ 

بی بی سکینہ گذشتہ دس سال سے روایتی ملبوسات فروخت کر رہی ہیں۔ ابتدا میں ان کے گاہک صرف خضدار اور بلوچستان تک محدود تھے مگر جب انہوں نے اپنے اس ہنر کو ’ہیلو دُوچ‘ کے نام سے ایک باقاعدہ برانڈ بنا کر سوشل میڈیا پر متعارف کروایا تو پاکستان سمیت بیرونِ ملک سے بھی آرڈرز ملنا شروع ہوگئے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بی بی سکینہ کا کہنا تھا: ’میری والدہ نے بچپن میں کڑھائی سکھائی جو ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ میں نے تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ ہنر تو تھا مگر اسے آگے بڑھانا اور دیگر غریب خواتین کی مدد کرنا ایک کٹھن فیصلہ تھا، پھر بھی میں نے ہمت نہیں ہاری۔‘

سکینہ بی بی کے مطابق: ’پہلے گھر کا ایک کمرہ دکان بنایا، پھر برسوں بعد برانڈ بنانے میں کامیابی ملی، آج 500 سے زائد خواتین میری برانڈ سے وابستہ ہیں۔ ہر خاتون کم از کم 20 ہزار روپے ماہانہ فری لانسر کی طرح کماتی ہے، جس سے وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات پورے کرتی ہیں۔ زیادہ تر خواتین غریب دیہی خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں جہاں خواتین کے لیے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔‘

خود ناخواندہ ہونے کے باوجود بی بی سکینہ نے ایک ٹیم بنائی ہوئی ہے، جو سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے برانڈ اور کام کو دنیا بھر تک پہنچاتی ہے۔ یہی ٹیم سینکڑوں خواتین کے روزگار، خودمختاری اور بلوچ ثقافت کے فروغ کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔

غزل ستار، جو تین سال سے ڈیجیٹل کوآرڈی نیٹر کے طور پر بی بی سکینہ کے ساتھ کام کر رہی ہیں، بتاتی ہیں کہ ’میں ہیلو دُوچ کو سوشل میڈیا پر پروموٹ کرتی ہوں۔ اس کام سے مجھے معاشی خودمختاری ملی اور میرے ایم بی بی ایس کے تعلیمی اخراجات بھی پورے ہو رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غزل کے مطابق یہ ملبوسات سعودی عرب، سویڈن، برطانیہ، عمان، مسقط، لندن سمیت متعدد ممالک میں آن لائن کوریئر کے ذریعے فروخت ہوتے ہیں۔ حال ہی میں جب بی بی سکینہ نے لوک ورثہ میں سٹال لگایا تو فرانس اور برطانیہ کے شہریوں نے بھی ان کے ملبوسات خریدے۔

کشیدہ کار 28 سالہ ساجدہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ماہانہ 25 سے 30 ہزار روپے کڑھائی سے کماتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’خوش ہوں کہ اس ہنر نے مجھے بااختیار بنایا اور ہماری ثقافت بھی دنیا تک پہنچی۔‘

بلوچستان میں خواتین صدیوں سے ثقافتی کشیدہ کاری کرتی آرہی ہیں۔ یہ ملبوسات عام کپڑوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط، محنت طلب اور اسی وجہ سے قیمت میں بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک سوٹ 15 ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک میں فروخت ہوتا ہے۔

صوبے میں خواتین کی شرحِ خواندگی انتہائی کم ہے مگر کڑھائی کا ہنر تقریباً ہر بلوچ اور پشتون خاتون کے پاس موجود ہے۔ اگر انہیں بی بی سکینہ جیسی باہمت خواتین کی رہنمائی اور جدید دور کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی مل جائے تو وہ دور دراز دیہات میں رہتے ہوئے بھی بغیر تعلیم کے معاشی خودمختاری حاصل کرسکتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین