بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں جمعے کو علی الصبح پرتشدد مظاہرے شروع ہوئے جس کی وجہ 2024 میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف احتجاج کے ایک سرکردہ طالب علم رہنما کی موت کا اعلان تھا۔
32 سالہ شریف عثمان ہادی 12 دسمبر کو ڈھاکہ میں ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہو گئے تھے اور انہیں علاج کے لیے سنگاپور منتقل کیا گیا، جہاں جمعرات کی شب وہ ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ ان کے انتقال کی خبر جمعے کی صبح سامنے آئی۔
شریف عثمان ہادی کی موت کے اعلان کے بعد ہزاروں لوگ ڈھاکہ کی سڑکوں پر نکل آئے اور مطالبہ کیا کہ ان کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے۔
بنگلہ دیشی حکام کے مطابق دارالحکومت میں کئی عمارتوں بشمول ملک کے دو اہم اخبارات کی عمارتوں کو آگ لگا دی گئی، جبکہ عملہ اندر پھنسا ہوا تھا۔
شریف عثمان ہادی گذشتہ سال حکومت مخالف احتجاج میں ایک اہم شخصیت کے طور ابھرے تھے۔ ملک گیر احتجاج کے بعد اس وقت کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی طویل حکمرانی کا خاتمہ ہوا اور انہیں انڈیا فرار ہونا پڑا۔
ہادی فروری 2026 کے قومی انتخابات میں پارلیمانی نشست کے لیے امیدوار کے طور سامنے آئے تھے۔
12 دسمبر کو شریف عثمان ہادی کو نقاب پوش حملہ آوروں نے اس وقت گولی ماری جب وہ ڈھاکہ میں ایک مسجد سے نکل رہے تھے۔
فائر بریگیڈ اور سول ڈیفنس فورس کے ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ جمعے کو علی الصبح ہادی کی موت کی خبر پھیلنے کے بعد ڈھاکہ میں عمارتوں کو آگ لگانے کے کم از کم تین واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں اخبار ڈیلی سٹار کی عمارت میں آگ لگائی گئی اور پرتھم الو اخبار کی عمارت کو بھی نذر آتش کیا گیا۔
یہ دونوں اخبار جنوبی ایشیائی ملک میں سب سے بڑے ہیں، لیکن احتجاج کرنے والوں نے الزام لگایا کہ ان کا جھکاؤ انڈیا کی طرف ہے، جہاں حسینہ نے پناہ لے رکھی ہے۔
ڈیلی سٹار کی رپورٹر زائمہ اسلام نے بتایا کہ وہ جلتی ہوئی عمارت کے اندر پھنسی ہوئی تھیں۔
انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ’میں مزید سانس نہیں لے سکتی۔ بہت زیادہ دھواں ہے۔ میں اندر ہوں، تم مجھے مار رہے ہو۔‘
فائر فائٹنگ حکام نے بتایا کہ ڈیلی سٹار عمارت میں لگنے والی آگ پر صبح 1:40 بجے قابو پالیا گیا۔
تاہم 27 ملازمین اب بھی اندر تھے۔
ایک رپورٹر احمد دیپتو نے احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہم نے عمارت کے عقب میں پناہ لی اور انہیں نعرے لگتے ہوئے سنے۔‘
بنگلہ دیش میں انڈیا کے سفیر کے گھر کو بھی سینکڑوں افراد نے گھیر لیا جو دھرنے میں مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن مقامی خبروں کے مطابق، پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے۔
اس کے علاوہ مقامی ٹیلی ویژن پر دکھائی جانے والی فوٹیج کے مطابق، مظاہرین نے دارالحکومت سے جانے والی ایک اہم شاہراہ کو بند کر دیا اور ملک کے جنوب مشرق میں چٹاگانگ میں ایک سابق وزیر کی رہائش گاہ پر حملہ کیا۔
مظاہرین نے ڈھاکہ میں بنگالی ثقافت سے متعلق ایک مرکز پر بھی حملہ کیا۔
’قوم کو ناقابل تلافی نقصان‘
اس سے قبل جمعہ کو سنگاپور کے حکام نے اعلان کیا تھا کہ شریف عثمان ہادی کی موت مقامی ہسپتال میں ہوئی ہے۔
سنگاپور کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ’ڈاکٹرز کی بہترین کوششوں کے باوجود...، مسٹر ہادی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔‘
بیان میں کہا گیا کہ وہ بنگلہ دیشی حکام کی لاش وطن واپس لے جانے میں مدد کی جا رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈھاکہ میں نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت نے ہادی کی موت کی تصدیق کی۔
یونس نے ایک ٹیلی ویژن تقریر میں کہا ’ان کا انتقال قوم کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔
’جمہوریت کی طرف ملک کے مارچ کو خوف، دہشت یا خونریزی کے ذریعے نہیں روکا جا سکتا۔‘
حکومت نے جمعے کو مساجد میں خصوصی دعائیں اور ہفتہ کو سوگ کا اعلان بھی کیا ہے۔
شریف عثمان ہادی، طلبا کے احتجاجی گروپ کے ایک سینیئر رہنما اور انڈیا کے ایک کھلے نقاد تھے۔
بندوق برداروں کی تلاش
بنگلہ دیشی پولیس نے ہادی کے شوٹروں کی تلاش شروع کر دی ہے، جس میں دو اہم مشتبہ افراد کی تصاویر جاری کی گئی ہیں اور ان کی گرفتاری کی اطلاع دینے پر پچاس لاکھ ٹکا (تقریباً 42,000 ڈالر) انعام کی پیشکش کی گئی ہے۔
85 سالہ نوبل امن انعام یافتہ یونس، 12 فروری کو ہونے والی ووٹنگ تک بنگلہ دیش کی قیادت کر رہے ہیں، انہوں نے ہادی پر فائرنگ کو ایک طاقتور نیٹ ورک کی طرف سے کیا گیا ایک منصوبہ بند حملہ قرار دیا ہے جس کا مقصد انتخابات کو پٹری سے اتارنا ہے۔
مسلم اکثریتی بنگلہ دیش، 170 ملین آبادی کا ملک، اپنی پارلیمنٹ کے لیے 300 اراکین کو براہ راست ووٹ دے گا جن میں سے 50 کو خواتین کی فہرست میں منتخب کیا گیا ہے۔
جنوری 2024 میں ہونے والے آخری انتخابات میں حسینہ کو مسلسل چوتھی بار وزیراعظم منتخب کیا گیا اور ان کی عوامی لیگ کو 222 نشستیں ملی تھیں، لیکن حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان کی مذمت کی تھی۔
بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی)، جس کی قیادت تین بار کی سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کر رہی ہیں، آنے والے ووٹ میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر اشارے دیے جا رہے ہیں۔
خالدہ ضیا ڈھاکہ میں انتہائی نگہداشت میں ہیں اور ان کے بیٹے اور سیاسی وارث طارق رحمان 25 دسمبر کو 17 سال بعد برطانیہ میں جلاوطنی سے واپس آنے والے ہیں۔