بنگلہ دیشی حکومت نے اتوار کو بتایا ہے کہ اس نے انڈیا سے ایک بار پھر سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
شیخ حسینہ کو گذشتہ ہفتے طلبہ کی تحریک کے خلاف خونی کریک ڈاؤن کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
78 سالہ حسینہ اگست 2024 میں اپنی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے انڈیا میں روپوش ہیں۔ بطور وزیراعظم انہیں نئی دہلی کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بنگلہ دیش کی عبوری انتظامیہ میں امور خارجہ کے نگران توحید حسین نے صحافیوں کو بتایا کہ ’جمعے کو ہم نے شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے ایک اور خط ارسال کیا ہے۔‘
انہوں نے خط کے متن کی تفصیلات تو نہیں بتائیں، تاہم مقامی اخبار ’پروتھوم الو‘ کے مطابق شیخ حسینہ کے فرار کے بعد سے ان کی واپسی کے لیے کی جانے والی یہ تیسری سرکاری درخواست ہے۔
گذشتہ پیر کو عدالت کی جانب سے حسینہ کو انسانیت سوز جرائم کا مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائے جانے کے بعد، ڈھاکہ میں وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ دو طرفہ معاہدے کے تحت سابق سربراہ کی واپسی کو یقینی بنانا دہلی کی ’قانونی و اخلاقی ذمہ داری‘ ہے۔
اس کے جواب میں انڈین وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ انہوں نے عدالتی فیصلے کو ’نوٹ‘ کر لیا ہے، تاہم انہوں نے حوالگی کی درخواست پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ انڈیا نے ڈھاکہ کے تازہ ترین خط کا بھی ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا۔
حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے بنگلہ دیش سیاسی انتشار کا شکار ہے، اور فروری 2026 میں متوقع انتخابات کے لیے جاری مہم بھی تشدد سے متاثر ہوئی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، حسینہ کی جانب سے اقتدار بچانے کی کوشش میں کیے گئے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 1400 کے قریب افراد مارے گئے اور یہی اموات ان کے خلاف مقدمے کی بنیادی وجہ بنیں۔
ماضی میں شیخ حسینہ کے لیے انڈیا کی حمایت کی وجہ سے، ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد دونوں پڑوسی ممالک کے تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ تاہم اس ہفتے بنگلہ دیش کے قومی سلامتی کے مشیر خلیل الرحمٰن کے انڈیا کے دورے اور اپنے انڈین ہم منصب اجیت دوول سے ملاقات کے بعد کشیدگی میں کچھ کمی کے آثار دکھائی دیے ہیں۔ بنگلہ دیشی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق خلیل الرحمٰن نے اجیت دوول کو دورے کی دعوت بھی دی ہے۔