پاکستان میں لڑکیوں کو سرویکل کینسر سے بچانے والی ویکسین کے پہلے مرحلے کو غلط معلومات نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ والدین نے ہیلتھ کیئر ورکرز کے لیے دروازے بند کر دیے اور کچھ سکول ان جھوٹے دعووں کے باعث کہ یہ بانجھ پن کا سبب بنتی ہے کئی دن تک بند رہے۔
ملک کی پہلی ایچ پی وی ویکسی نیشن مہم کا ہدف ایک کروڑ 10 لڑکیوں کو ٹیکے لگانا تھا لیکن جب یہ ہفتے کو ختم ہوئی تو مقررہ خوراکوں کا صرف تقریباً نصف ہی لگایا جا سکا۔
ایک پرانی سازشی تھیوری کہ مغرب میں تیار کی گئی ویکسینیں مسلمان آبادی کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، پاکستان میں آن لائن پھیل رہی ہے۔
یہ غلط معلومات بھی پھیلائی گئیں کہ ویکسین کم عمر لڑکیوں کے ہارمونز بگاڑ دیتی ہے اور جنسی سرگرمی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
کراچی کے نچلے متوسط آمدنی والے علاقے میں گھر گھر جا کر ویکسین لگانے والی عنبرین زہرہ نے اے ایف پی کو بتایا: ’کچھ لوگوں نے انکار کیا۔ ہم پر اپنے دروازے بند کر دیے اور یہاں تک کہ اپنی بیٹی کی عمر کی معلومات بھی چھپا لیں۔‘
وفاقی محکمہ صحت کے عہدے دار نے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ویکسین لگانے کا جو ہدف مقرر کیا گیا اس کا صرف تقریباً نصف ہی لگایا جا سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سی لڑکیاں جن تک پہنچنا ہمارا ہدف تھا، انہیں ابھی تک ویکسین نہیں لگائی گئی لیکن ہم پرعزم ہیں کہ مہم کے اختتام کے بعد بھی ویکسین دستیاب رہے تاکہ مزید خواتین اور لڑکیوں کو ویکسین لگ سکے۔‘
ایک خاتون ٹیچر نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ راولپنڈی کے نواح میں ان کے سکول میں ایک بھی ویکسین نہیں لگ سکی کیوں کہ والدین نے رضامندی ظاہر نہیں کی۔ ٹیچر کے مطابق دیگر دیہی سکولوں میں بھی یہی صورت حال رہی۔
ایک صحت اہلکار نے، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، کہا کہ کچھ نجی سکولوں نے ویکسین ورکرز کو نظرانداز کرنے کے لیے کئی دنوں تک سکول بند رکھے۔
اسلام آباد میں محکمہ صحت کی اعلیٰ عہدے دار سیدہ رشیدہ بتول جنہوں نے اپنی بیٹی کو ویکسین لگا کر مہم کا آغاز کیا کہتی ہیں کہ ’پہلے دن ہم اپنے ہدف کا 29 فیصد تک پہنچے، یہ اچھا نہیں تھا، مگر ٹھیک تھا۔
’اسی دن کی شام کو ویڈیوز آن لائن گردش کرنے لگیں اور اس کے بعد ویکسینیشن میں کمی آ گئی۔ سب بدل گیا۔‘
چند سال پہلے ایک احتجاج کے دوران آنسو گیس کلاس روم میں آ جانے کے بعد درد سے دوہری ہوتی طالبات کی ایک ویڈیو دوبارہ آن لائن شیئر کی گئی اور اسے ویکسین کے بعد کے اثرات قرار دیا گیا۔
دائیں بازو کی ایک مذہبی جماعت کے مقبول رہنما راشد محمود سومرو نے گذشتہ ہفتے کہا کہ رضاکارانہ ویکسین حکومت کی جانب سے لڑکیوں پر زبردستی مسلط کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب میں کہا کہ ’حقیقت میں ہماری بیٹیوں کو بانجھ بنایا جا رہا ہے۔‘
’اس کا مقصد آبادی پر قابو پانا ہے۔‘
95 فیصد کیسز میں سرویکل کینسر کی وجہ انسانی پیپیلوما وائرس (ایچ پی وی) کا مستقل انفیکشن ہوتا ہے۔ یہ ایسا وائرس ہے جو جنسی سرگرمی کے ذریعے پھیلتا ہے اور زندگی میں تقریباً ہر کسی کو متاثر کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے منظور شدہ ایچ پی وی ویکسین سرویکل کینسر کے خلاف محفوظ اور سائنسی بنیادوں پر تحفظ ہے اور 150 سے زیادہ ممالک میں جانیں بچانے کی طویل تاریخ کی حامل ہے۔
سرویکل کینسر خاص طور پر کم اور متوسط آمدنی والے ممالک، مثال کے طور پر پاکستان میں شدید جان لیوا ہے، جہاں یونیسف کے مطابق ہر سال مرض کی تشخیص کے بعد تقریباً 5000 خواتین میں سے لگ بھگ دو تہائی جانیں چلی جاتی ہیں، اگرچہ یہ عدد ممکنہ طور پر کم رپورٹ ہوا۔ اس کی وجہ بیماری کے بارے میں نمایاں آگاہی کی کمی، جنسی صحت پر بات نہ کرنا اور سکریننگ اور علاج کی ناقص سہولیات ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یورپی کمیشن کے مطابق یورپ میں، جہاں ایچ پی وی ویکسین بہت مؤثر رہی، 2020 میں یورپی یونین کے تمام 27 ممالک میں تقریباً 30000 خواتین میں مرض کی تشخیص ہوئی جن میں سے تقریباً ایک تہائی خواتین کی موت ہوئی۔
کراچی کی 30 سالہ مریم بی بی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی تینوں بیٹیاں ویکسین نہیں لگوائیں گی کیوں کہ ’میرے شوہر اجازت نہیں دیتے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ویکسین بچیوں کو بانجھ بنا دے گی۔ اس سے آبادی پر قابو پایا جائے گا۔‘
لاہور کی 42 سالہ گھریلو خاتون حمنہ سلیم نے کہا کہ انہیں یہ ویکسین ’غیر ضروری‘ لگتی ہے۔
’تمام کینسر خوفناک ہیں۔ ہم اپنے لڑکوں کو اپنی بیویوں کے ساتھ وفادار رہنے کا کیوں نہیں کہتے بجائے اس کے کہ اپنی لڑکیوں کو مزید ویکسینیں لگوانے کو کہیں؟‘
پاکستان اور افغانستان ان دو ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو مقامی طور پر پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں غلط معلومات اور سازشی نظریات کے نتیجے میں ویکسینز کے خلاف مسلسل مزاحمت موجود ہے۔
2023 میں پہلی بار ایک سال پولیو کیسز کے بغیر گذارنے کے بعد، یہ مفلوج کرنے والی بیماری دوبارہ نمودار ہوئی اور 2025 میں اب تک 27 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
ایچ پی وی ویکسین سے متعلق پھیلی ہوئی غلط معلومات کے جواب میں پاکستان کے وزیر صحت سید مصطفیٰ کمال نے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنی نوعمر بیٹی کو ٹیلی ویژن کیمروں کے سامنے ویکسین لگوائی۔
انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ ’میں اپنے 30 سالہ سیاسی کریئر میں کبھی اپنے خاندان کو عوام کے سامنے نہیں لایا لیکن جس طرح میری بیٹی مجھے عزیز ہے، قوم کی بیٹیاں بھی مجھے عزیز ہیں، اسی لیے میں اسے میڈیا کے سامنے لایا ہوں۔‘