’بچپن میں ویکسین ہوتی تو اذیت سے بچ جاتی:‘ سرویکل کینسر مریضہ

پاکستان میں ایچ پی وی ویکسینیشن مہم کو منفی پروپیگنڈے کا سامنا ہے، تاہم طبی ماہرین والدین پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی نو سے 14 سالہ بچیوں کو یہ محفوظ اور مؤثر ویکسین لازمی لگوائیں۔

’میرے بچپن میں اگر (ہیومن پیپیلوما وائرس سے بچاؤ کی) ویکسین لگتی تو پورا سال اذیت میں نہ گزرتا۔‘

رحم کے دہانے کے کینسر (سرویکل کینسر) سے ایک سال تک لڑنے کے بعد صحت یاب ہونے والی کراچی کی سمیعہ زبیر نے والدین پر زور دیا ہے کہ وہ اپی بچیوں کو یہ ویکسین ضرور لگوائیں۔

کورنگی کی رہائشی اور تین بچوں کی والدہ سمیعہ کی شادی 2013 میں ہوئی تھی لیکن تین سال پہلے تیسرے بیٹے کی پیدائش کے بعد ان میں سرویکل کینسر کی تشخیص ہوئی۔

37 سالہ سمیعہ بتاتی ہیں: ’مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جب ٹیسٹ کروائے تو پتہ چلا کہ مجھے سرویکل کینسر ہے۔‘

وہ ایک تکلیف دہ علاج کے بعد اب صحت یاب ہو چکی ہیں لیکن ان کی لوگوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی بچیوں کو ایچ پی وی کی ویکسین ضرور لگوائیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’آج کی بچیوں کی خوش نصیبی ہے کہ سرویکل کینسر سے بچانے والی ویکسین آ گئی ہے اور وہ بھی مفت لگائی جا رہی ہے۔ میرے بچپن میں اگر ویکسین لگتی تو پورا سال اذیت سے نہ گزرتا۔‘

پاکستان کی فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایمیونائزیشن نے عالمی ادارہ صحت، ویکسین الائنس گیوی اور اقوام متحدہ کے فنڈ برائے اطفال (یونیسف) کے اشتراک سے 15 سے 27 ستمبر تک ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا ہے۔

مہم کے پہلے مرحلے میں پنجاب، سندھ، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور اسلام آباد میں نو سے 14 سال کی بچیوں کو ویکسین لگائی جائے گی۔

تاہم مہم کے خلاف بالخصوص سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈا جاری ہے۔ سوشل میڈیا کے کچھ صارفین کا الزام ہے کہ اس ویکسین کے باعث خواتین بانجھ ہو سکتی ہیں۔

جمعیت علما اسلام سندھ کے رہنما راشد محمود سومرو نے ویکسین کی مخالفت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’کینسر سے بچاؤ کا بہانہ کر کے بچیوں کو ویکسین لگائی جا رہی ہے مگر دراصل اس ویکسین سے بچیوں کو بانجھ بنایا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے سندھ حکومت سے فوری طور پر ویکسین مہم بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ویکسین مہم سے قبل تمام سیاسی، مذہبی اور قوم پرست رہنماؤں کو بٹھا کر ڈاکٹروں سے بریفنگ دلوائی جائے، اس کے بعد ہم لائحہ عمل تیار کریں گے۔

’سندھ میں 42 فیصد عوام ویکسین لگانے سے انکاری‘

ایمیونائزیشن توسیعی پروگرام یا ای پی آئی کے سندھ میں مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن آفیسر ارسلان میمن نے بتایا کہ مہم کے دوران صوبے میں 40 سے 42 فیصد لوگوں نے اپنی بچیوں کو ویکسین لگانے سے انکار کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب صوبہ پنجاب میں حکام کے مطابق ویکسین سے انکار کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

ترجمان محکمہ صحت پنجاب آغا احتشام کا کہنا ہے کہ منفی پروپیگنڈے کے باوجود صوبے میں ویکسین مہم پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑا اور حکومت پنجاب ہر صورت میں صوبے کی اہل آٹھ لاکھ بچیوں کو ویکسین لگائے گی۔

آغا احتشام کے مطابق: ’منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔ آن لائن منفی پروپیگنڈا کرنے کے خلاف ایف آئی اے کو آگاہ کیا جائے گا۔‘

طبی ماہرین اور محکمہ صحت کے حکام نے ویکسین کے خلاف پروپیگنڈے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اسے انتہائی محفوظ قرار دیا ہے۔

آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں شعبہ امراضِ اطفال کی چیئرپرسن پروفیسر فائزہ جہان کے مطابق کچھ لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس ویکسین کے باعث بچیاں بے ہوش ہو جاتی ہیں یا مستقبل میں بانجھ پن اور ہارمونز کی تبدیلی جیسے مسائل پیدا ہوں گے، مگر ان تمام باتوں میں کوئی صداقت نہیں۔

پروفیسر فائزہ جہان کے مطابق: ’یہ ویکسین سائنسی بنیادوں پر تیار کی گئی ہے۔ اس کے پہلے ٹرائل ہوئے اور اب یہ ویکسین 150 سے زائد ممالک میں لگائی جا رہی ہے۔ ان ممالک میں اس طرح کا کوئی بھی سائیڈ ایفیکٹ نہیں دیکھا گیا۔

’دنیا بھر میں اس ویکسین کے کروڑوں ڈوز لگ چکے ہیں۔ یہ ویکسین اسلامی ممالک میں بھی استعمال کی جا رہی ہے۔

’یہ ایک محفوظ ویکسین ہے جس کے لگانے سے بچیوں کو بڑے ہونے پر کینسر کی ایک خطرناک قسم سے محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔‘

 

فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایمیونائزیشن اسلام آباد کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل ڈاکٹر خرم اکرم نے بتایا کہ یہ کوئی نئی ویکسین نہیں بلکہ 150 سے زائد ممالک میں پہلے ہی استعمال ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر خرم اکرم نے زور دیا کہ تمام لوگ اپنی بچیوں کو یہ ویکسین لگوا کر انہیں ہمیشہ کے لیے محفوظ بنائیں۔

آغا خان یونیورسٹی کراچی کے ڈپارٹمنٹ آف پیڈیاٹرکس کی پروفیسر اور شعبہ متعدی امراض کی سربراہ فاطمہ میر کا کہنا تھا کہ ’خواتین میں رحم کے دہانے کے کینسر (سرویکل کینسر) کا سبب بننے والا ہیومن پیپیلوما وائرس ایک ایسا وائرس ہے جو ایک جسم کی جلد سے دوسرے جسم کی جلد، خاص طور پر جنسی اعضا کی جلد میں منتقل ہوتا ہے۔

’ہیومن پیپیلوما وائرس کی وجہ سے متاثرہ فرد کے جسم پر مسے یا موکے نمودار ہوتے ہیں، جو اصل میں سرویکل کینسر کا سبب بنتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ وائرس مردوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے، تاہم خواتین میں یہ کینسر کا تیسرا بڑا سبب ہے۔

’پاکستان میں اس وائرس سے ہونے والا کینسر دیگر اقسام میں بڑے پیمانے پر ہونے والا کینسر سمجھا جاتا ہے۔ اس کینسر کا علاج بے انتہا مشکل ہے اور اس سے بڑی تعداد میں اموات واقع ہوتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت