آسکر کی تقریب میں گنجے پن پر مذاق ’تکلیف دہ اور شرمناک‘

خواتین میں گنج پن کا معاملہ تکلیف دہ، مایوس کن اور شرم ناک ہوتا ہے، جس کا اظہار اداکارہ جیڈا پنکٹ سمتھ سمیت دیگر مشہور شخصیات نے اپنے احساسات عوامی سطح پر بتا کر کیا ہے۔

جیڈا پنکٹ سمتھ سمیت دیگر مشہور خواتین نے اپنے احساسات کا اظہار عوامی سطح پر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ گنج پن (ایلوپیشیا) میں مبتلا ہونا ایک تکلیف دہ، مایوس کن اور شرم ناک عمل ہوتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق خواتین میں گنجا پن عوام کے شعور میں اس وقت تیزی سے اجاگر ہوا جب امریکی اداکار ول سمتھ نے کامیڈین کرس راک کو آسکر کی حالیہ تقریب کے دوران اپنی بیوی کے گنج پن کا مذاق اڑانے پر تھپڑ رسید کیا۔

جیڈا پنکٹ سمتھ نے اپنے گنجے پن پر پہلی مرتبہ 2018 میں بات کی تھی جب انہیں گنجے پن کی بیماری ہوئی تھی، جسے میڈیکل کی زبان میں ایلوپیشیا کہا جاتا ہے۔

امریکی اداکارہ اور ڈائریکٹر جیڈا پنکٹ سمتھ نے اس وقت اپنے آن لائن شو ’ریڈ ٹیبل ٹاک‘ میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ میری زندگی کے ان لمحات میں سے ایک تھا جب میں خوف سے کانپ رہی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’اس وقت میں یہ سوچ رہی تھی کہ خدایا کیا میں گنجی ہو رہی ہوں؟‘

ڈیموکریٹک پارٹی سے کانگریس کی خاتون رکن ایانا پریسلے نے 2020 میں ایلوپیشیا بیماری میں مبتلا ہونے کا اعلان ٹوئٹر پر کیا تھا۔ انہوں نے پیر کو ایک ٹویٹ میں کہا: ’آئیں یہ گفتگو کرتے ہیں کہ ایلوپیشیا کے ساتھ زندگی گزارنا کیسا ہے؟ وہ انتہائی غیر محفوظ اور مشکل لمحات ہیں، جو ہمارے خاندان دیکھتے ہیں۔ ان لوگوں کو سراہنے کے لیے یہ پوسٹ ہے جو ہمیں تھام لیتے ہیں اور ہماری حمایت کرتے ہیں، جب ہم سب سے زیادہ مایوس ہوتے ہیں۔ وہ ہمارا مکمل خیال کرتے ہیں۔‘

اب جب کہ امریکی فلمی صنعت ہالی وڈ خواتین کی خوبصورتی کے حوالے سے تصورات اور حقیقت کے درمیان توازن کی طرف بڑھ رہی ہے تو بہت سی اداکاراؤں نے بال جھڑنے کے اثرات پر بات شروع کر دی ہے۔ بال جھڑنے کی وجوہات میں اعصابی تناؤ، زچگی کے بعد جسم میں ہارمونز کی تبدیلیاں اور کرونا سے متاثر ہونا شامل ہیں۔

امریکی اداکارہ سلمیٰ بلیئر نے 2011 میں زچگی کے بعد ’پیپلز میگزین‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ بالکل بھی دلکش نہیں ہے، لیکن یہ حقیقت ہے۔ مجھے غسل کا دورانیہ بڑھانا پڑتا ہے تاکہ میں جھڑنے والے بال اکٹھے کر سکوں اور پھینک سکوں تاکہ وہ نکاسی کی نالی بند نہ کر دیں۔ اداکارائیں اس کے بارے میں کبھی بات کیوں نہیں کرتی؟‘

امریکی اداکارہ الیسا میلانو نے بھی کہا تھا کہ کرونا سے متاثر ہونے کے بعد ان کے بال گرنا شروع ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے ’میری خود شناسی کی حِس مکمل متاثر ہوئی تھی۔‘

انہوں نے کہا تھا: ’یہ بہت مشکل ہے۔ خاص کر جب آپ ایک اداکار ہوں۔ آپ کی شناخت کا ایک بڑا حصہ لمبے ریشمی بالوں اور صاف جلد میں لپٹا ہوتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی اداکارہ ریکی نے 2020 میں انسٹاگرام پر لکھا تھا کہ وہ اپنی تمام زندگی بال جھڑنے کے حوالے سے پریشان رہی ہیں۔

انہوں نے لکھا تھا کہ ’یہ کمزور کرنے والا، شرم ناک، تکلیف دہ، خوف ناک، مایوس کن اور تنہا کرنے والا ہے۔ کچھ موقعوں پر تو مجھے خود کشی کے خیالات بھی آئے تھے۔‘

آسکرز انعام یافتہ اداکارہ وائی اولا ڈیویس کہتی ہیں کہ انہوں نے ایلوپیشیا کے اثرات وِگز کے ذریعے چھپانے کی کوشش کی تھی۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا: ’میرے پاس ایک وگ تھی جو میں گھر میں پہنا کرتی تھی۔ ایک وگ تھی جو تقریبات میں پہنا کرتی تھی۔ ایک وگ ورزش کے دوران پہنتی تھی۔‘

وائی اولا نے مزید بتایا تھا کہ ’میں نے کبھی اپنے قدرتی بال نہیں دکھائے تھے۔ مجھے بہت تمنا تھی کہ لوگ سوچیں کہ میں خوبصورت ہوں۔‘

ڈیویس نے گذشتہ دہائی میں گنجے پن کے موضوع پر کھل کر بات کی ہے۔ انہوں نے اسے اپنی سیریز ’ہاؤ ٹو گیٹ اوے ود مرڈر‘ کا حصہ بھی بنایا۔ اس میں ان کا کردار، جو ایک مستحکم ارادے والی وکیل اور استاد ہوتی ہیں، ایک موقع پر اپنی وگ اتار کر اپنے بہت چھوٹے بال دکھاتی ہیں۔

الوپیشیا بیماری ہے کیا؟

امریکہ کی نیشنل ایلوپیشیا ایریاٹا فاؤنڈیشن نے پیر کو اپیل کی ہے کہ مزید لوگ اس بیماری کے بارے میں جانیں۔

اس تنظیم کے مطابق ایلوپیشیا ایریاٹا مخصوص قسم کا گنجا پن ہے، جو آٹو امیون ڈس آرڈر کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں تیزی سے بال جھڑتے ہیں۔ اس سے امریکہ میں 70 لاکھ اور دنیا میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہیں۔

تنظیم کے مطابق ’ایلوپیشیا کی پیشگی تشخیص ممکن نہیں اور اس سے نمایاں طور پر نفسیاتی، سماجی اور مالی بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔‘

تنظیم کے مطابق ’ایلوپیشیا ایریاٹا کسی کو بھی کسی بھی عمر میں قلیل مدتی یا طویل مدتی طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ بہت سے لوگ جو اس سے متاثر ہیں تکلیف میں ہیں اور ہمیں بہتر اقدام کے ذریعے ایسے افراد کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ یہ کلنگ، امتیاز اور سماجی رکاوٹیں مٹائی جا سکیں۔‘

پاکستان میں ایلوپیشیا سے متاثرہ خواتین

انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستانی معاشرے میں ایلوپیشیا سے متاثرہ خواتین کے حوالے سے معلومات اور ان کو در پیش نفسیاتی مسائل سے آگہی کے لیے ڈاکٹر عائزہ یزدانی عابد سے تفصیلی گفتگو کی ہے۔

ڈاکٹر عائزہ سائیکولوجسٹ ہیں اور اسلام آباد میں ایک نجی نفسیاتی مرکز کی سربراہ ہیں۔

ڈاکٹر عائزہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میں نے پاکستان مین نوجوان لڑکیوں اور پچاس سال کی عمر سے زائد خواتین میں گنجے پن کے مسائل دیکھے ہیں۔‘

ڈاکٹر عائزہ نے بتایا کہ ’کیوں کہ اس کا کوئی علاج ممکن نہیں اس لیے پھر وہ خواتین حجاب کے ذریعے گنجے پن کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’جو خواتین مالی طور پر برداشت کر سکتی ہیں وہ بیوٹی پارلرز کے ذریعے بالوں کی مصنوعی ایکسٹینشنز وغیرہ استعمال کرتی ہیں۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کے ایک سوال پر ڈاکٹر عائزہ کا کہنا تھا کہ ’ایک سائیکولوجسٹ ہونے کے ناتے میں یہ بتا سکتی ہوں کہ ہمارے معاشرے میں گھریلو، روزگار اور رشتوں کی پریشانیوں کی وجہ سے خواتین میں اعصابی تناؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔‘

’اعصابی تناؤ کے خواتین کے جسم پر شدید اثرات ہوتے ہیں۔ یہ صرف تناؤ نہیں ہوتا بلکہ جسم کی تمام کیمائی ترکیب کو تبدیل کر دیتا ہے۔ اس کے اثرات بہت سے ہیں جیسے کاندھوں میں درد ہونا۔ نظام ہضم میں تبدیلیاں رونما ہونا۔ جلد خراب ہو جانا۔ نیند متاثر ہونا اور پھر ایک موقعے پر بال بھی گرنا شروع ہو جاتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عائزہ نے بتایا کہ ’پاکستانی معاشرے میں خواتین کی خوبصورتی کے کچھ معیارات ہیں۔ بڑی عمر میں تو معاملہ مختلف ہوتا ہے کہ سر ڈھانپ لیا جاتا ہے۔ لیکن نوجوان لڑکیوں کے لیے بال ہی خوبصورتی کا معیار ہوتا ہے۔‘

’بال جھڑنے کی وجہ سے تناؤ انزائیٹی اور پھر ڈپریشن میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ انزائیٹی یہ ہوتی ہے کہ جی اب شادی نہیں ہوگی۔ شادی ہو گئی ہے تو اب برقرار نہیں رہے گی۔‘

ڈاکٹر عائزہ نے معاشرتی رویوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ہاں باڈی شیمنگ کا رجحان بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک منٹ میں ہم کسی بھی شخص کی جسمانی کیفیت پر جملہ کس دیتے ہیں۔‘

خواتین پر باڈی شیمنگ جیسے منفی رویے کے اثرات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عائزہ کا کہنا تھا کہ ’نوجوان لڑکیوں کو خاص کر اپنی ہم عمر لڑکیوں کی جانب سے ایسے جملے شدید متاثر کرتے ہیں جس سے ان کی خود اعتمادی تباہ ہو جاتی ہے۔‘

’ایلوپیشیا کے وجہ سے خواتین کی شادی شدہ زندگی بھی متاثر ہوتی ہے خاص کر ایسے ماحول میں جہاں ظاہری شکل و صورت کو بہت اہمیت دی جاتی ہو۔‘

ڈاکٹر عائزہ کا کہنا تھا کہ ’ایلوپیشیا سے متاثرہ خواتین میں نفسیاتی مسائل سٹریس یا تناؤ سے شروع ہوتے ہیں اور اگر وقت پر اس کی تشخیص نہ ہو یا قابو نہ پایا جا سکے تو پھر انزائیٹی اور ڈس آرڈر تک چلے جاتے ہیں۔‘

’ایک موقع پر خواتین باڈی ڈس مورفیا کا شکار بھی ہو جاتی ہیں جس میں انھیں اپنے جسم سے نفرت ہو جاتی ہے۔‘

ایلوپیشیا سے متاثرہ خواتین کی بہتری کے لیے ڈاکٹر عائزہ نے کہ اکہ ’معاشرے مین شعور اجاگر کرنا ہو گا۔ بالکل ایسے ہی جیسے معذور افراد کے حوالے سے معاشرے میں اب کافی حد تک شعور آ چکا ہے۔‘

’معاشرے میں لوگوں کو دوسروں کی مخصوص جسمانی کیفیت پر جملے کسنے سے بھی اجتناب برتنے کی تربیت دینی ہو گی کیوں کہ ایک انسان جیسا بھی لگ رہا ہے ہمارا کوئی حق نہیں بنتا کہ ہم اس پر کوئی منفی بات کہیں۔‘


نوٹ: بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔  

ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین