انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں واقع ایک ہیئر ٹرانسپلانٹ کلینک کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ایک ناراض صارف کو پانچ ہزار پاؤنڈ (تقریباً پانچ لاکھ 84 ہزار انڈین روپے) ہرجانے کے طور پر ادا کرے۔
صارف کا دعویٰ ہے کہ چار لاکھ 67 ہزار انڈین روپے خرچ کرنے کے باوجود ان کے بالوں میں ’ایک فیصد بہتری‘ بھی نظر نہیں آئی۔
ویوک کمار نے اپنی شادی سے قبل دہلی کے معروف کلینک ’ڈی ایچ اے ایشین روٹس‘ سے رجوع کیا۔ کنزیومر فورم کے مطابق کلینک نے انہیں ’سو فیصد نتائج‘ اور ’قدرتی انداز‘ کا جھانسہ دیا۔
کمار نے 2011 سے 2012 کے دوران تین مرتبہ ہیئر ٹرانسپلانٹ کے سیشنز کرائے۔
عدالتی حکم کے مطابق کمار نے تمام ہدایات پر عمل کیا اور نتائج کا انتظار کیا لیکن انہیں کوئی بہتری محسوس نہیں ہوئی جس کے بعد انہوں نے دسمبر 2013 میں دہلی ڈسٹرکٹ کمزیومر ڈسپیوٹ ریڈریسل کمیشن سے رجوع کیا۔
کمیشن نے کلینک کو سروس میں کوتاہی اور گمراہ کن کاروباری طریقے اپنانے کا مرتکب قرار دیتے ہوئے کمار کو جسمانی اور ذہنی اذیت کے ازالے کے طور پر معاوضہ ادا کرنے کا اہل ٹھہرایا۔
کمیشن نے مزید کہا کہ ’کلینک نے گنج پن والے حصے میں بالوں کی پیوند کاری تو کی لیکن ضرورت سے زیادہ بال نکال کر اس جگہ بھی گنج پچ پیدا کر دیا جہاں سے بال لیے گئے تھے۔‘
کمیشن نے کلینک کو حکم دیا کہ وہ مکمل علاج کی رقم پانچ لاکھ انڈین روپے واپس کرے اور ذہنی اذیت کے لیے ایک لاکھ اور قانونی اخراجات کے لیے تین لاکھ انڈین روپے ادا کرے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ کلینک ’جدید طبی ہیئر امپلانٹیشن کا لائسنس یا اجازت نامہ پیش کرنے میں ناکام رہا‘ اور ’ایسے طریقہ علاج کے لیے حکومت سے اجازت لیے بغیر ڈاکٹروں کو تعینات کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالتی حکم نامے میں واضح کیا گیا کہ ’یہ طریقہ کار ایک غیر منصفانہ طبی کاروباری عمل تھا، جسے بغیر ضروری لائسنس یا مہارت کے صرف مالی فائدے کے لیے انجام دیا گیا‘
انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ڈی ایچ آئی ایشین روٹس نے بتایا کہ وہ اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے اپیل دائر کرے گا۔
کلینک نے بتایا ’متعلقہ صارف نے 2011 اور 2012 میں دو علیحدہ سیشنز کروائے۔ 2013 میں انہوں نے فورم میں شکایت دائر کی حالانکہ انہیں نتائج ملے تھے۔
’ہم یہ وضاحت کرنا چاہتے ہیں کہ تمام دعوے نہ تو شکایت کا حصہ تھے، نہ ہی ان کے ساتھ کوئی ثبوت پیش کیا گیا اور نہ ہی ان کا اصل حقائق سے کوئی تعلق ہے۔‘
کلینک نے یہ بات کمار کے اس الزام کے حوالے سے کہی، جس میں اُن کا کہنا تھا کہ اُن کا علاج ’غیر تربیت یافتہ عملے‘ سے کرایا گیا۔
کلینک نے مزید دعویٰ کیا کہ ’عدالتی فیصلہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ پہلی بار کے نتائج سے صارف مطمئن تھے، اسی لیے وہ دوسری بار بھی واپس آئے۔
’دونوں بار ہئیر ٹرانسپلانٹ تربیت یافتہ، سند یافتہ اور ماہر ڈرماٹالوجسٹ ڈاکٹروں کے ذریعے انجام دیے گئے۔‘
بیان میں یہ بھی کہا گیا ’حقیقت یہ ہے کہ عدالتی حکم نامے میں خود تسلیم کیا گیا کہ صارف پہلے مرحلے کے نتائج سے مطمئن تھا اور اسی وجہ سے وہ دوسری بار علاج کے لیے آیا۔
’دونوں سیشنز اعلیٰ تربیت یافتہ، سند یافتہ اور ماہر ایم ڈی ڈرماٹولوجسٹ ڈاکٹروں نے انجام دیے اور ڈی ایچ آئی تمام لائسنسنگ تقاضوں پر پوری طرح عمل کرتا ہے۔ حکم نامے میں کئی دیگر تضادات بھی موجود ہیں۔‘