سیاسی طبل جنگ؟

نئے صوبوں کا شوشہ بظاہر بےوقت کی راگنی محسوس ہوتا ہے مگر ہو سکتا ہے کہ اسے کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر نئے این ایف سی کی راہ ہموار کرنے کے لیے چھیڑا گیا ہو۔

نو مارچ، 2024 کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس نظر آ رہا ہے (اے ایف پی)

دن گنتے گانٹھ لگانے سے نہ وقت کم ہوتا ہے اور نہ ہی فاصلہ مختصر۔ ہر گزرتے دن کا حساب اور خسارے کا ادراک البتہ گانٹھ کے ساتھ ہی گُندھ جاتا ہے۔ ایک ہی وقت میں کئی ایک بکھیڑے شروع کرنے سے نہ کام صحیح نہ مقصد حاصل۔۔ بہر حال گتھی الجھانے والے سلجھانے کا فن رکھتے ہیں جبھی تو پہلے سے کھولی ’پَنڈ‘ ابھی سمٹی نہیں کہ نیا ٹوکرا تیار۔۔۔

’مسائلستان‘ میں ہر مسئلہ پچھلے مسئلے سے زیادہ گھمبیر اور آنے والے مسائل کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔

ابھی نو مئی کے معاملات سمٹے نہیں کہ فضا میں نئے انتظامی یونٹس کی صدا گونجنے لگی ہے۔ صدا لگانے والے ازلی ریاستی ڈھنڈورچی ہوں تو گویا ماجھے تاجے بھی سمجھ جاتے ہیں کہ بیک گراؤنڈ میوزک کس کا ہے۔ نئے صوبوں پر گفتگو، 27ویں ترمیم اور این ایف ایس سی ایوارڈ کی تشکیل نو۔۔۔ ایک ہی وقت میں نئے موضوعات اور پرانے معاملات پھر نئی طشتری میں سجا کر پیش کیے جا رہے ہیں حالانکہ ابھی دہشت گردی، موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات اور خطرات، نو مئی کے مقدمات، ضمنی انتخابات جیسے کئی ایک معاملات زیر گردش ہیں کہ اب ایک بار پھر کئی ایک سنجیدہ اور کسی حد تک حساس موضوعات پر بحث شروع ہو چکی ہے۔

یہ گفتگو کسی طور غیر اہم نہیں اور نہ ہی 27ویں ترمیم فی الحال ایوان اقتدار میں بحث کا موضوع، مگر جس معاملے پر سر دست غور شروع ہو چکا وہ ہے نیا قومی مالیاتی ایوارڈ۔ وفاق اپنے حصے کے پول یعنی ساڑھے 42 فیصد میں اضافہ چاہتا ہے۔ صوبے ساڑھے 57 فی صد کے حساب سے اپنا حصہ نکالنا چاہتے ہیں، جبکہ آئی ایم ایف وفاق کے حصے کو بڑھانے پر بضد۔

وفاق کا پول کیسے بڑھے گا؟ صوبے اپنے حصے کو کم کیسے کریں گے؟ اس سلسلے میں کئی ایک تجاویز زیر غور ہیں مثلاً:

  • وفاق گلگت بلتستان، پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور اسلام آباد کا حصہ بڑھا دے۔
  • صوبے بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام، موسمیاتی تبدیلی جیسے اخراجات خود اٹھائیں۔
  • صوبے اپنی کٹوتی خود کر کے وفاق کو حصہ دیں۔

اب ان تینوں میں سے کس معاملے پر قومی مالیاتی کمیشن رضامند ہو گا یہ دیکھنا اہم ہے اور اگر رضامندی بشرط وفاداری استوار نہ ہو سکی تو کس کا ملبہ کس پر گرے گا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یوں محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں وفاق اور صوبوں کے درمیان بحث طول اختیار کر سکتی ہے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سب افہام و تفہیم سے ہو جائے اور حسب سابق سب جماعتیں اپنی بقاء کی خاطر سمجھوتہ کر لیں۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے بعض نکات پر اختلافات 18ویں ترمیم کے بعد سے موجود ہیں۔ وفاق کے پاس دفاع، قرضوں کی ادائیگی سمیت دیگر اخراجات کے لیے محدود وسائل پر مقتدرہ تحفظات کا اظہار کئی بار کر چکی ہے۔ 18ویں ترمیم اور اس کے بعد وجود میں آنے والے این ایف سی ایوارڈ پر سیاسی جماعتیں اور بالخصوص پیپلز پارٹی مقتدرہ کے نشانے پر رہی ہے تاہم اب جنگی حالات اور تقاضوں نے وفاق کو مزید پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔

دوسری جانب ایک موقف یہ بھی ہے کہ صوبوں کے اضافی بجٹ کے باوجود قرضوں کی ادائیگی، ریونیو اور دفاع اور اب موسمیاتی تبدیلی کے نقصانات کا مزید مالیاتی دباؤ وفاق پر آ رہا ہے، لہٰذا اس سلسلے میں پہلے سے ہی پیش بندی کرنا ضروری ہے۔ یہ بحث پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان تو موجود ہے ہی مگر اب وفاقی اور صوبائی اکائیوں کے درمیان بلائے جانے والے کمیشن کے اجلاس میں باضابطہ دیکھنے کو ملے گی۔

آپس میں معاملات طے ہو نے کی صورت آئین کے آرٹیکل 160 کی شق 3 میں تبدیلی ضروری نہیں جبکہ دوسری صورت تبدیلی کی جا سکتی ہے اور نتیجتا ایک اور 26ویں ترمیم کی صورت حال بننے کا امکان موجود ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مقتدرہ نے ’موڈ‘ بنا لیا ہے اور اب ’ماحول‘ بنانے کی کوشش جاری ہے۔

نئے انتظامی یونٹس کے حوالے سے چھیڑی گئی بحث بھی بےوقت کی راگنی محسوس ہوتی ہے مگر ہو سکتا ہے کہ مذاکرات کی میز پر کئی ایک شرائط کی صورت کم سے کم اتفاق کے لیے یہ معاملہ چھیڑا گیا ہو؟ نئے انتظامی یونٹس کا معاملہ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر نئے این ایف سی کی راہ ہموار کر سکتا ہے؟

کسی بھی مجوزہ نئے انتظامی یونٹ کے قیام سے قبل متعلقہ صوبائی اسمبلی کی منظوری ضروری ہے اور ایسی صورت میں دو تہائی اکثریت رکھنے والی پیپلز پارٹی کے لیے کم از کم سندھ میں اس پر سمجھوتا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ دوسری صورت کیا پیپلز پارٹی پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے اور اس کے لیے پیپلز پارٹی کو سندھ میں سیاسی طور پر تنہا کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے؟

یہ سب سوالات محض سوالات ہیں یا آنے والے دنوں میں سیاسی رسہ کشی کا سبب بھی بن سکتے ہیں اس کا اندازہ آئندہ چند دنوں میں ہو سکے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر