15 برس بعد بھی نیا این ایف سی ایوارڈ کیوں جاری نہ ہو سکا؟

اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت ہر پانچ سال بعد این ایف سی ایوارڈ جاری ہونا لازمی ہے، لیکن پچھلے 15 برسوں سے نیا ایوارڈ سامنے نہیں آ سکا۔ صوبہ سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں اس پر مسلسل احتجاج اور نئے فارمولے کے تحت اجرا کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

4 جون 2025 کو اسلام آباد میں قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کا چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ گروپ فوٹو (حکومت پاکستان /فیس بک)

اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت وفاق اور صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کے لیے ہر پانچ سال بعد نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ جاری ہونا لازمی ہے، لیکن پچھلے 15 برسوں سے نیا ایوارڈ سامنے نہیں آ سکا۔ صوبہ سندھ اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں اس پر مسلسل احتجاج اور نئے فارمولے کے اجرا کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

صوبوں کے مطالبات

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے رواں ہفتے حیدر آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے صوبائی حکومتوں کو ذمہ داریاں تو دیں لیکن این ایف سی ایوارڈ وہی پرانا ہے۔ وفاق اپنی ناکامیوں کا بوجھ صوبوں پر نہ ڈالے۔ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں ناکامی صوبوں کی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی ناکامی ہے۔‘

اسی طرح خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور بھی صوبے کے فنڈز اور نئے ایوارڈ کے اجرا کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

وفاقی حکومت کا موقف

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کئی بار یہ تجویز دے چکے ہیں کہ این ایف سی کے تحت وسائل کی تقسیم صرف آبادی کے بجائے مسائل کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے تجاویز وزیر اعظم کو بھجوا دی ہیں تاہم حتمی فیصلہ صوبوں کی مشاورت اور اتفاق رائے سے ہی ہو گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

معاملہ کمیٹیوں میں کہاں تک پہنچا؟

قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے سیکرٹری حماد اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا: ’ابھی تک این ایف سی ایوارڈ کا معاملہ کمیٹی کے سامنے نہیں آیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی ڈرافٹ موصول ہوا ہے۔ جب بھی ڈرافٹ آئے گا تو کمیٹی اس پر غور کرے گی۔‘

مبصرین کی رائے

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر وفاقی حکومت وسائل کی تقسیم کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے اور زیادہ وسائل اپنی جماعت کے زیر انتظام صوبوں کو دینے کی کوشش کرتی ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق صوبوں کے پاس اپنے فنڈز بھی موجود ہوتے ہیں لیکن وہ انہیں مکمل طور پر استعمال نہیں کر پاتے اور پھر اپنی ناکامیوں کا ملبہ وفاق پر ڈال دیتے ہیں۔

این ایف سی ایوارڈ کیوں اہم؟

سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری کے مطابق: ’شروع میں وفاق جمع شدہ ٹیکسوں کا 47 فیصد صوبوں کو دیتا تھا لیکن اٹھارھویں ترمیم کے بعد یہ حصہ 57 فیصد تک بڑھایا گیا۔ اس کے باوجود پچھلے 15 برس سے نئے فارمولے پر کوئی ایوارڈ جاری نہیں ہو سکا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ صوبوں کو وفاق سے حصہ تو مل رہا ہے لیکن نئے اضافہ شدہ طریقہ کار کے تحت نہیں مل رہا اور وہ بنیادی عوامی مسائل پر کم اور سیاسی مفادات پر زیادہ خرچ کیا جا رہا ہے۔

معاشی ماہر الماس حیدر نے کہا کہ ’ایوارڈ کا مقصد وسائل کو نچلی سطح تک پہنچانا ہے لیکن نہ وفاق اور نہ ہی صوبے بااختیار بلدیاتی نظام قائم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو مسائل مقامی حکومتوں کو حل کرنے چاہییں وہ وزیر اعظم یا وزرائے اعلیٰ اپنے کھاتے میں ڈال کر سیاسی فائدہ اٹھاتے ہیں۔‘

قانونی پہلو

سابق چیئرمین سینیٹ اور اٹھارھویں ترمیم کے اہم معمار میاں رضا ربانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت صوبوں کا حصہ کبھی کم نہیں ہو سکتا۔ ’ 2009 میں ساتواں این ایف سی ایوارڈ طے پایا اور 2010 میں نافذ ہوا۔ 15 سال بعد بھی نیا ایوارڈ جاری نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی ہے اور صوبوں کو ان کے جائز حق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت