اپریل میں سیاحوں پر ہونے والے ایک حملے کے بعد انڈیا رد عمل میں پاکستانی کھیتوں کو پانی فراہم کرنے والے ایک بڑے دریا سے اپنی پانی کی مقدار کو نمایاں طور پر بڑھانے کے منصوبوں پر غور کر رہا ہے۔
انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا جس کی اسلام آباد کی جانب سے تردید اسی وقت کر دی گئی۔
روئٹرز نے اپنی رپورٹ ان چار افراد کا حوالہ دیا ہے جو اس معاملے سے واقف ہیں۔
جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 26 شہریوں کو مارا گیا، جسے انڈیا نے ’دہشت گردی‘ قرار دیا، تو نئی دہلی نے 1960 کے سندھ طاس معاہدے میں اپنی شرکت کو ’معطل‘ کر دیا، جو سندھ دریا کے نظام کے استعمال کو منظم کرتا ہے۔
پاکستان نے اس واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے، لیکن معاہدہ بحال نہیں ہوا اور دو جوہری ہتھیار رکھنے والے پڑوسیوں نے دہائیوں کے بدترین تنازعے کے بعد گذشتہ ہفتے جنگ بندی پر اتفاق کیا۔
چھ افراد نے رائٹرز کو بتایا کہ معاہدے میں انڈیا کی شرکت کو معطل کرنے کے بعد، انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے حکام کو ہدایت دی کہ وہ چناب، جہلم اور سندھ دریاؤں پر منصوبوں کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کو تیز کریں، یہ تین آبی ذخائر سندھ نظام میں شامل ہیں جو بنیادی طور پر پاکستان کے استعمال کے لیے مختص ہیں۔‘
ان میں سے دو افراد نے کہا کہ ’زیر غور ایک اہم منصوبہ رنبیر نہر کی لمبائی کو دوگنا کر کے 120 کلومیٹر تک لے جانا ہے، جو چناب پر واقع ہے اور انڈیا سے پاکستان کے زرعی مرکز پنجاب تک جاتی ہے۔ یہ نہر 19ویں صدی میں بنائی گئی تھی، جو معاہدے کے دستخط سے کافی پہلے کی بات ہے۔‘
چار افراد نے سرکاری بحث اور دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انڈیا کو چناب سے آبپاشی کے لیے محدود مقدار میں پانی نکالنے کی اجازت ہے، لیکن ایک بڑی نہر کی مدد سے، جس کی تعمیر میں ماہرین کے مطابق کئی سال لگ سکتے ہیں، کی مدد سے 150 مکعب میٹر پانی فی سیکنڈ موڑا جا سکے گا۔ فی الحال پانی کی مقدار تقریباً 40 مکعب میٹر ہے۔
رنبیر کی توسیع کے بارے میں انڈین حکومت کی غور و فکر کی تفصیلات پہلے کبھی رپورٹ نہیں ہوئیں۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ گفتگو گذشتہ ماہ شروع ہوئی اور جنگ بندی کے بعد بھی جاری رہی۔
انڈین وزارتیں جو پانی اور خارجہ امور کی ذمہ دار ہیں، نیز مودی کے دفتر نے بھی روئٹرز کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔
انڈین ہائیڈرو پاور این ایچ پی سی، جو سندھ نظام کے کئی منصوبے چلاتا ہے، نے بھی تبصرہ کے لیے بھیجے گئے ای میل کا جواب نہیں دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مودی نے اس ہفتے ایک پرجوش تقریر میں کہا کہ ’پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے،‘ حالانکہ انہوں نے معاہدے کا حوالہ نہیں دیا۔
وزیر پانی سی آر پاٹل نے جمعے کو ایک میڈیا تقریب میں کہا کہ ان کی وزارت ’وزیر اعظم مودی کے کہے ہوئے کو نافذ کرے گی‘ اور ’کوشش کرے گی کہ ایک قطرہ پانی بھی باہر نہ جائے۔‘
پاکستان کی وزارت پانی اور خارجہ نے تبصرے کے لیے درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔ وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے اس ہفتے قانون سازوں کو بتایا کہ حکومت نے انڈیا کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ معاہدے کی معطلی غیر قانونی ہے اور اسلام آباد اسے اب بھی مؤثر اور فعال تصور کرتا ہے۔
اسلام آباد نے اپریل میں انڈیا کی جانب سے معاہدے کی معطلی کے بعد کہا تھا کہ وہ ’پاکستان کے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا موڑنے کی کسی بھی کوشش‘ کو ’جنگی اقدام‘ سمجھتا ہے۔
پاکستانی کھیتوں کا تقریباً 80 فیصد انڈس نظام پر انحصار کرتا ہے، اور ملک کے تقریباً 25 کروڑ افراد کے لیے تقریباً تمام ہائیڈرو پاور منصوبے بھی اسی پر منحصر ہیں۔
واشنگٹن میں قائم سینٹر فار سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے ماہر آبی سلامتی ڈیوڈ مائیکل نے کہا کہ انڈیا کی جانب سے ڈیم، نہریں یا دیگر انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی کوئی بھی کوشش جو سندھ نظام سے پانی کے بہاؤ کو روکنے یا موڑنے کے لیے ہو ’عملی طور پر کئی سال لے گی۔‘
لیکن پاکستان کو پہلے ہی اس دباؤ کا سامنا ہے جو انڈیا سے آ سکتا ہے: جب انڈیا نے کچھ سندھ منصوبوں پر مرمت کا کام شروع کیا تو مئی کے اوائل میں پاکستان کے ایک کلیدی مقام پر پانی کی سطح 90 فیصد تک کم ہو گئی۔
انڈس نظام دنیا کے کچھ سب سے زیادہ جغرافیائی طور پر کشیدہ علاقوں سے گزرتا ہے، جو تبت میں جھیل مانسروور کے قریب سے نکلتا ہے اور انڈیا کے شمال اور پاکستان کے مشرق اور جنوب مشرق سے ہوتا ہوا بحیرہ عرب میں جا کر گرتا ہے۔
معاہدے کو دنیا کے سب سے کامیاب پانی کی تقسیم کے معاہدوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان کئی بڑی جنگوں اور طویل عرصے سے جاری کشیدگی کے باوجود قائم رہا۔
اسلام آباد نے پہلے بھی انڈس سسٹم میں انڈیا کے کئی منصوبوں کی مخالفت کی ہے، جبکہ کشمیر حملے کے بعد نئی دہلی نے کہا کہ وہ 2023 سے معاہدے پر دوبارہ بات چیت کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ آبادی میں اضافے اور اپنی بڑھتی ہوئی ہائیڈرو انرجی کی ضروریات کو مدنظر رکھا جا سکے۔
کامیابی کو خطرہ
معاہدہ انڈیا کو بنیادی طور پر پابند کرتا ہے کہ وہ ان تین دریاؤں پر کم اثر والے ہائیڈرو پاور منصوبے قائم جو پاکستان کو مختص کیے گئے ہیں۔
دہلی کو تین دیگر دریاؤں - ستلج، بیاس اور راوی کی معاون ندیوں - کے پانی کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کی آزادی ہے۔
روئٹرز کی طرف سے دیکھی گئی دو سرکاری دستاویزات اور اس معاملے سے واقف پانچ افراد کے انٹرویوز کے مطابق رنبیر نہر کی توسیع کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ، انڈیا ان منصوبوں پر بھی غور کر رہا ہے جن سے ان دریاؤں سے پاکستان میں پانی کے بہاؤ میں کمی واقع ہو سکتی ہے، جو اس ملک کو مختص ہیں۔
ایک دستاویز، جو ایک سرکاری کمپنی کی طرف سے آبپاشی کے منصوبوں پر غور کرنے والے حکام کے لیے تیار کی گئی ایک غیر تاریخ شدہ نوٹ ہے، تجویز کرتی ہے کہ سندھ، چناب اور جہلم کے پانی کو شمالی انڈیا کی تین ریاستوں میں دریاؤں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
ایک شخص نے کہا کہ یہ دستاویز، جس کی تفصیلات پہلے کبھی رپورٹ نہیں ہوئیں، 22 اپریل کے حملے کے بعد پاور منسٹری کے حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار کی گئی تھی۔
دہلی نے اپنے جموں و کشمیر کے علاقے میں ہائیڈرو پاور منصوبوں کی ایک فہرست بھی تیار کی ہے جس کے بارے میں اسے امید ہے کہ وہ موجودہ 3,360 میگاواٹ سے بڑھ کر 12,000 میگاواٹ تک صلاحیت میں اضافہ کریں گے۔
یہ فہرست، جو پاور منسٹری نے تیار کی اور روئٹرز نے دیکھی، تاریخ شدہ نہیں تھی۔
ایک شخص جو اس دستاویز سے واقف تھا، نے کہا کہ یہ کشمیر واقعے سے پہلے تیار کی گئی تھی لیکن حکومتی حکام اس پر فعال طور پر بحث کر رہے ہیں۔
اس معاملے سے واقف دو افراد کے مطابق ممکنہ منصوبوں میں ایسے ڈیم بھی شامل ہیں جو بڑی مقدار میں پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں، جو سندھ دریا کے نظام میں انڈیا کے لیے پہلی بار ہوگا۔
پاور منسٹری کی دستاویز کے مطابق، انڈیا نے کم از کم پانچ ممکنہ ذخیرہ کرنے کے منصوبوں کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے چار چناب اور جہلم کی معاون ندیوں پر ہیں۔
سیاسی کشمکش
کشمیر پر دعویٰ انڈیا اور پاکستان دونوں کرتے ہیں، جبکہ دونوں علاقے کے کچھ حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں۔
یہ علاقہ دہائیوں سے انڈیا مخالف بغاوت کا شکار رہا ہے، جس کا الزام نئی دہلی نے اسلام آباد پر لگایا ہے کہ وہ اس کی پشت پناہی اور مالی معاونت کر رہا ہے۔ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر ہیپیمون جیکب نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے پر انڈیا کی نئی توجہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کو ظاہر کرتی ہے۔
انہوں نے کہا، ’تازہ ترین تنازعے کے ساتھ، دہلی ممکنہ طور پر کسی بھی صورت میں پاکستان کے ساتھ کشمیر پر بات کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’دہلی نے نہ صرف دو طرفہ بات چیت کے دائرہ کار کو بتدریج محدود کیا ہے بلکہ ایجنڈے کو بھی مختصر کیا ہے، جو صرف مخصوص مسائل جیسے کہ آئی ڈبلیو ٹی پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔‘
پاکستان نے کہا ہے کہ وہ کئی بین الاقوامی فورمز، بشمول ورلڈ بینک (جو معاہدے کا سہولت کار ہے)، مستقل ثالثی عدالت یا دی ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف میں قانونی کارروائی کی تیاری کر رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پیر کو روئٹرز کو بتایا، ’پانی کو ہتھیار نہیں بنانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا، ’ہم کسی بھی ایسے منظرنامے پر غور نہیں کرنا چاہتے جو ... جس میں اس معاہدے کی بحالی کو مدنظر نہ رکھا جائے۔‘
امریکہ میں مقیم ماہر مائیکل نے کہا کہ معاہدے کی معطلی کے حوالے سے تشویش صرف اسلام آباد تک محدود نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ’جب خطے میں جغرافیائی سیاسی مقابلہ گہرا ہوتا جا رہا ہے، تو کچھ انڈین مبصرین کو خدشہ ہے کہ دہلی کی جانب سے پانی کو اسلام آباد کے خلاف استعمال کرنے سے بیجنگ کو انڈیا کے خلاف اسی حکمت عملی کو اپنانے کا جواز مل سکتا ہے۔‘