سٹاک ایکسچینج: 15 کمپنیاں 1 ارب ڈالر کلب میں، کیا معیشت مضبوط ہو رہی ہے؟

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں دو سالوں میں تقریباً 12 کمپنیاں ایک ارب ڈالر کلب میں شامل ہوئی ہیں، یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو سالوں میں ایسا کیا ہوا ہے جس سے تاریخی اضافہ ممکن ہو سکا اور کیا اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے؟

7 اپریل 2025 کو کراچی میں ایک سٹاک بروکر پاکستان سٹاک ایکسچینج میں ٹریڈنگ سیشن کے دوران اپنے فون پر ویڈیو ریکارڈ کر رہا ہے (آصف حسن / اے ایف پی)

پاکستان سٹاک ایکسچینج سے مسلسل بہتری کی خبریں آ رہی ہیں۔ دو سالوں میں تقریباً 12 کمپنیاں ایک ارب ڈالر کلب میں شامل ہو گئی ہیں۔ 2023 میں صرف دو کمپنیاں ایک ارب ڈالر کلب میں شامل تھیں۔ دو سالوں میں یہ اضافہ حیران کن ہے۔

ایک اندازے کے مطابق یہ اضافہ 500 فیصد سے زیادہ ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دو سالوں میں ایسا کیا ہوا ہے جس سے تاریخی اضافہ ممکن ہو سکا اور کیا اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ ملک ترقی کر رہا ہے؟

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’12 کمپنیاں ایک بلین ڈالر کلب میں شامل ہوئی ہیں۔ تین کمپنیاں پہلے ہی ایک بلین ڈالر میں شامل تھیں۔ 12 نئی کمپنیوں میں پانچ بینکس، دو آئل اینڈ گیس، دو زراعت، دو کنسٹرکشن اورایک تمباکو کی کمپنی شامل ہیں۔

’پچھلے چند سالوں سے سٹاک ایکسچینج دباؤ میں رہی ہے اس میں کچھ بہتری متوقع تھی لیکن اتنا بڑا اضافہ شک و شبہات کو جنم دے سکتا ہے۔ زراعت جی ڈی پی کا تقریبا 25فیصد اور سروس سیکٹر تقریباً 60 فیصد ہے۔ لیکن سٹاک ایکسچینج میں ان کا شئیر نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکار سٹاک ایکسچینج میں بہتری کے دعوے کر رہی ہے لیکن یہ سب ملکی سطح پر ہو رہا ہے جو کہ ان سائیڈر ٹریڈنگ بھی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ بیرونی سرمایہ کار تو پیسہ لگا نہیں رہا بلکہ اپنا سرمایہ لے کر ملک سے جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’سٹیٹ بینک کہہ رہا ہے کہ پورٹ فولیو انویسٹمنٹ منفی ہے، یعنی کہ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہو گیا ہے۔ 2024 میں 326 ملین ڈالرز مارکیٹ سے نکلے تھے اور پچھلے سال 2025 میں 637 ملین ڈالرز مارکیٹ سے نکل گئے ہیں۔ اس سٹاک کے بڑھنے سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ اگر کمپنیاں اتنا بہتر پرفارم کر رہی ہیں تو ملک میں روزگار بڑھنا چاہیے تھا جبکہ ملک میں بے روزگاری میں تقریبا 6.3 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سٹاک ایکسچینج میں بہتری کا مطلب معیشت میں بہتری ہو سکتا ہے لیکن پاکستان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ سٹاک کو ایک پالیسی کے تحت اوپر لایا جارہا ہے۔ اس وقت انڈیا میں سٹاک ایکسچینج کیپ انڈین جی ڈی پی کے 100 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ملائشیا میں جی ڈی پی کا 83 فیصد اور سنگاپور میں بھی 100 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان میں سٹاک کا کیپ جی ڈی پی کی نسبت ابھی بھی صرف 12 سے 13 فیصد ہے، اسے بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

’اگر آپ مالی سال 26-2025 کا بجٹ دیکھیں تو اس میں سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو بہتر پیکج دیا گیا ہے اور کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گی جبکہ بینکوں سے منافع کمانے والوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے سرمائے کا رخ سٹاک ایکسچینج کی طرف ہوا ہے۔ اس کے علاوہ شرح سود میں بہت زیادہ کمی کی گئی ہے جس سے بچت سکیموں کے منافع میں کمی ہوئی ہے اور متبادل کے طور پر سٹاک ایکسچینج بہتر پلیٹ فارم بن کر سامنے آیا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سال 2007 میں جب میں وزیر خزانہ تھا تو سٹاک کا شیئر 50 فیصد سے بڑھ گیا تھا کیونکہ اس وقت ہر ہفتے تین سے چار کمپنیاں سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ ہو رہی تھیں اور بیرونی سرمایہ کاری بھی آ رہی تھی۔ ابھی بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، صرف پہلے سے رجسٹرڈ پرانی بلیو چپ کمپنیوں میں پیسہ لگ رہا ہے۔ جب چھوٹے سیکٹر میں بہت زیادہ پیسہ آ جائے تو کمپنیوں کا منافع بڑھ جاتا ہے لیکن یہ حقیقی ترقی نہیں ہے۔ اصل معاشی ترقی یہ ہے کہ نئی کمپنیاں سٹاک ایکسچینج میں آئیں اور عوام ان کے شیئرز میں دلچسپی دکھائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ریئل سٹیٹ کا پیسہ سٹاک ایکسچینج میں نہیں لگ رہا، کیونکہ ریئل سٹیٹ سیکٹر بہت بڑا ہے اور پاکستان کی سٹاک ایکسچینج اس کو جذب کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ ریئل سٹیٹ سے پیسہ نکل کر شاید باہر جا رہا ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بہت گنجائش ہے، یہ 13 فیصد سے بڑھ کر 100 فیصد تک جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے ملک اور بیرون ملک لمبے عرصے تک اعتماد بحال رکھنا ضروری ہے۔‘

عارف حبیب لمیٹڈ کے ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ عامر راؤ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سٹاک ایکسچینج میں بہتری آئی ایم ایف پروگرام بحال ہونے کے بعد آنا شروع ہوئی۔ جولائی 2023 میں نیا آئی ایم ایف پروگرام آیا، ڈیفالٹ کا خطرہ ختم ہوا، جس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا۔ اس کے علاوہ مہنگائی 33 فیصد سے کم ہو کر چار فیصد تک آ  گئی، شرح سود 50 فیصد کم ہوئی، ڈالر مستحکم رہا اور ڈالر ذخائر چار ارب سے بڑھ کر 14 ارب تک پہنچ گئے، جس کی وجہ سے معاشی مستقبل کے بارے میں اچھی پیشن گوئیاں ہوئیں اور مارکیٹ بہتر ہوئی۔

’2021 میں بھی مہنگائی، شرح سود کم اور جی ڈی پی زیادہ تھا لیکن سٹاک ایکسچینج میں بہتری نہیں آ سکی کیونکہ اس وقت کرنٹ اکاونٹ منفی تھا، اب کرنٹ اکاونٹ بھی سرپلس ہے اور اگلے سال بھی مثبت رہنے کی امید ہے۔ آخری مرتبہ سال 2011 میں کرنٹ اکاونٹ مثبت ہوا تھا لیکن بیرونی سرمایہ کاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ سال 2017 میں فری فلوٹ مارکیٹ کیپ 30 سے 35 فیصد تھا جو کہ اب صرف تین سے چار فیصد رہ گیا ہے۔ سٹاک ایکسچینج میں بہتری مارکیٹ اصولوں کے عین مطابق ہے۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب ریئل سٹیٹ میں نقصان ہو رہا ہو، مہنگی بجلی کی وجہ سے نئی انڈسٹری نہ لگ رہی ہو اور ڈالر کی خریدو فروخت بھی منافع بخش نہ رہے تو سرمایہ کاری کے لیے تین آپشنز زیادہ فیور ایبل ہو سکتے ہیں۔ ایک آپشن یہ ہے کہ سونے میں انویسٹمنٹ کر لی جائے لیکن اس کے لیے زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔

’دوسری آپشن یہ ہے کہ کسی اور ملک میں سرمایہ کاری کی جائے، لیکن عام پاکستانی کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو سکتا ہےاور تیسرا آپشن یہ ہے کہ سٹاک ایکسچینج کا رخ کر لیا جائے۔ سٹاک ایکسچینج میں آپ انتہائی معمولی رقم سے بھی کام شروع کر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کے خاتمے تک ریئل سٹیٹ میں بوم آنا مشکل ہو سکتا ہے۔ جس دن ریئل سٹیٹ میں بوم آئے گا سٹاک سے پیسہ نکل کر پراپرٹی کے کاروبار میں لگ سکتا ہے۔‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ