60 سالہ کنگ خان جو اب بھی دل کی دلہنیا چرانا جانتے ہیں

زندگی کا سدا بہار گلابی پن تو شاہ رخ خان جیسے ستاروں کے لیے ہے۔ شہرت کی دیوی مہربان ہے، ساتھ والی اداکارائیں کب کی بوڑھی ہو کر زندگی کے اندھیروں میں گم ہو چکی ہیں، مگر کنگ خان کی چمک دمک مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

بالی ووڈ اداکار شاہ رخ خان 10 جون 2023 کو ممبئی میں اپنی رہائش گاہ منت میں مداحوں کا استقبال کر رہے ہیں (سوجیت جیسوال / اے ایف پی)

آج کل سٹار اور سپر سٹار کی بحث زوروں پر ہے۔ اپنی توفیق کا پتہ ہے، اس لیے خواہش کے باوجود اس موضوع پر کوئی بات کہنے کی ہمت نہیں کر پا رہا۔

مارکسی نقطہ نظر رکھنے والے دوستوں کی بات سے اتفاق ہے کہ فلم کسی انقلاب کا پیش خیمہ بننے کے بجائے ایسے راستے فراہم کرتی ہے جہاں خواب نما حقیقت بغاوت پر اُکسانے کے بجائے محض ترسیل کا کام کرتی ہے۔

سینیما یا انٹرٹینمنٹ کے دیگر ذرائع اپنی بنیاد میں سرمایہ پرست ہوں یا نہ ہوں، ان کا ڈھانچہ ایسے تشکیل دیا گیا ہے کہ وہ نظام کو سپورٹ کریں۔ فلم پر کچی پکی تنقید لکھنے والے بھی اس ڈھانچے سے باہر نہیں۔ چند ہزار کی خاطر شاہ رخ خان کے ارب پتی ہونے پر بلاگ لکھنے والے ایسا نہ کریں تو کیا کریں۔

غریبوں کا اکتوبر بس اس حد تک پنک ہوتا ہے کہ اپنی ٹیم کو گلابی وردی پہنے جنوبی افریقہ سے ہارتا دیکھ لیا۔

زندگی کا سدا بہار گلابی پن تو شاہ رخ خان جیسے ستاروں کے لیے ہے۔ شہرت کی دیوی مہربان ہے، ساتھ والی اداکارائیں کب کی بوڑھی ہو کر زندگی کے اندھیروں میں گم ہو چکی ہیں، مگر کنگ خان کی چمک دمک مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

کنگ خان کے حوالے سے تازہ خبر ہے کہ وہ ایک ارب ڈالر سے زائد دولت کے مالک بن گئے ہیں۔ ’ہورون انڈیا رِچ لسٹ 2025‘ کے مطابق ان کی مجموعی دولت 1.4 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔

یہ کتنی بڑی رقم ہے، ہم غریبوں کی پسماندگی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتی۔

یہ خبر محض ایک اداکار کی کامیابی نہیں بلکہ انسانی ارتقا کی کہانی بھی ہے۔ کبھی شاہ رخ ریل گاڑی کے پیچھے بھاگنے والا عاشق ہوا کرتا تھا، خواب دیکھنے والا عام انسان۔ آج وہ باکس آفس کے بادشاہ کے ساتھ ساتھ عالمی سرمایہ دار بن چکا ہے۔

ایک طرف یہ بات متاثر کن ہے کہ کوئی عام انسان خواب دیکھ کر کہاں پہنچ سکتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ بالی وڈ اب محض فن نہیں بلکہ ایک بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے۔

شہرت کا سورج اکثر اتنی ہی تیزی سے ڈوب جاتا ہے جتنی تیزی سے طلوع ہوتا ہے۔ بالی وڈ میں راجیش کھنہ سے بہتر اس کی کوئی دوسری مثال نہیں۔

دلیپ کمار سکرین سے دور ہو گئے، مگر ان کا عزت و احترام ہمیشہ بڑھتا گیا۔ وہ صحیح معنوں میں لیجنڈری اور دیو قامت شخصیت بنے۔

امیتابھ بچن نے ہمیشہ اپنے بڑھاپے سے لڑائی جاری رکھی اور گھر بیٹھنے کے بجائے فلمیں اور ٹی وی شوز کرتے رہے۔ وہ گھر بیٹھ جاتے تو نئی نسل کے لیے محض ماضی کی یاد رہ جاتے۔

ایک بڑا سٹار یا کوئی بھی مشہور شخص ہمیشہ اس بات سے خوفزدہ ہوتا ہے کہ شہرت کا ہما اس کے سر سے اڑ کر کہیں اور جا بیٹھا تو اس کا کیا بنے گا؟

شاہ رخ ایک ایسے فنکار ہیں جنہوں نے صرف اپنی پہچان قائم نہیں رکھی بلکہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے میں مسلسل شہرت و مقبولیت کی نئی سیڑھیاں چڑھتے رہے۔

دہلی کے ایک متوسط طبقے کے نوجوان سے لے کر ایک ایسے عالمی آئیکون تک، جن کا نام انڈین سینیما کی پہچان بن چکا ہے، شاہ رخ خان کا سفر خود کو ازسرِ نو تشکیل دینے، ڈھل جانے اور تجربات سے نہ ڈرنے کی ایک ڈرامائی تشکیل ہے۔

یہ صرف کامیابی کی کہانی نہیں، بلکہ ذہانت، مشاہدے اور ناظرین کے جذبات کو سمجھنے کی غیر معمولی صلاحیت کی داستان ہے۔

جب شاہ رخ خان 1980 کی دہائی کے آخر میں ممبئی پہنچے تو وہ روایتی ’ہیرو‘ نہیں تھے۔ نہ سجیلا بدن، نہ فلمی خاندان کی پشت پناہی، نہ وہ دبنگ انداز جو اس وقت کے سپر سٹارز سے مخصوص تھا۔ چھوٹے سے منہ والا لڑکا جس میں بجلی کی سی تیزی اور پہاڑ جیسا عزم تھا۔

نوے کی دہائی میں بالی وڈ تیزی سے تبدیل ہوا۔ شہری متوسط طبقہ اور بیرونِ ملک ناظرین ایسی کہانیاں چاہتے تھے جن میں روایت اور جدیدیت کا امتزاج ہو۔ تب آیا دل والے دلہنیا لے جائیں گے۔

راج روایتی قسم کا باغی تھا نہ ولن۔ وہ ایک ایسا نوجوان تھا جو محبت بھی کرتا ہے اور ماں باپ کی عزت بھی۔ شاہ رخ خان نے راج کے کردار میں محض رومانوی ہیرو نہیں بلکہ ایک نئی قسم کی مردانگی پیش کی۔

اس کے بعد ایک پورا سنہری دور آیا: دل تو پاگل ہے، کچھ کچھ ہوتا ہے، کبھی خوشی کبھی غم، محبتیں — یہ سب فلمیں ان کے ’کنگ آف رومانس‘ کے ٹھپے کو مزید گہرا کرتی گئیں۔

رومانوی کرداروں پر راج کرنے کے بعد کنگ خان تجربات کی طرف بڑھے۔ ’سودیس‘ میں ایک سائنس دان، ’چک دے انڈیا‘ میں ہاکی کوچ اور ’مائی نیم اِز خان‘ میں ایک ایسے انسان کا کردار جسے پیچیدہ بیماری ہے۔

ہر کردار نے ان کی شناخت کو وسعت دی۔ ’سودیس‘ میں وہ وطن واپسی کی تڑپ بنے، ’چک دے انڈیا‘ میں قومی غیرت اور معافی کی علامت، اور ’مائی نیم اِز خان‘ میں 9/11 کے بعد کے تعصبات کے خلاف انسانیت کی آواز۔ یہ امیج آج بھی شاہ رخ کو سلمان اور عامر کی کیٹیگری سے نکال کر دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کے ساتھ لا کھڑا کرتی ہے۔

انڈیا اور دنیا دونوں بدل رہے تھے، شاہ رخ خان اس تبدیلی کا آئینہ بنے — پرانی اور نئی نسل کے درمیان بننے والا آہنی پل۔

2018 سے 2022 کے درمیان ایسا لگا کہ شاید ’کنگ خان‘ کا دور ختم ہو گیا، لیکن جیسے ہر بڑے فنکار کو معلوم ہوتا ہے کہ کب سٹیج پر لوٹنا ہے، ویسے ہی شاہ رخ نے بھی اپنی شاندار واپسی کی۔

پٹھان (2023)، جوان (2023) اور ڈنکی (2023)، یہ تینوں فلمیں ان کی نئی توانائی، نئے بیانیے اور نئی نسل سے جڑنے کی صلاحیت کا ثبوت ہیں۔

’پٹھان‘ نے وبا کے بعد کے تماشائی کو سینیما کی بھول بھلیوں میں دوبارہ واپس لایا، ’جوان‘ نے سیاسی غصے کو ایک عوامی کہانی میں ڈھالا اور ’ڈنکی‘ نے ہجرت کے دکھ کو انسانی احساسات سے جوڑ کر داد سمیٹی۔

ایک 58 سالہ اداکار نے تین مختلف طرز کے ہندوستانوں سے مکالمہ کیا: عوامی، سیاسی، اور جذباتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہ رخ خان اب محض انڈین سٹار نہیں، ایک عالمی چہرہ ہیں۔ برلن سے دبئی، قاہرہ سے کوالالمپور تک، ان کے فینز ان کا استقبال کسی راک سٹار کی طرح کرتے ہیں، مگر ان کی عالمی مقبولیت کا راز صرف بالی وڈ نہیں بلکہ ان کی جذباتی ذہانت ہے۔

ان کے انٹرویوز، ان کا طنز، ان کی باتوں میں وہ شائستگی اور مزاح ہے جو انڈیا کے سافٹ امیج کی نمائندگی کرتا ہے۔

وہ اکثر کہتے ہیں: ’آپ میری فلمیں پسند کریں یا نہ کریں، مگر مجھے نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘

وہی رئیس فروغ والی بات کہ حسن کو حسن بنانے میں میرا ہاتھ بھی ہے، آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

مگر شاید ان کی سب سے بڑی تبدیلی ذاتی ہے۔ دہلی کا وہ بے چین نوجوان اب ایک متوازن، سنجیدہ اور فیاض شخصیت میں ڈھل چکا ہے۔

وہ صرف اپنے کرداروں سے نہیں، اپنی سوچ سے بھی متاثر کرتے ہیں کہ ناکامی ضروری ہے، محبت مزاحمت ہے اور خود کو بدلنا ہی بقا ہے۔

ایک ایسی انڈسٹری میں جہاں شہرت لمحاتی ہے، شاہ رخ خان نے کچھ کہیں زیادہ دیرپا وراثت قائم کی ہے۔

ایسی وراثت جو صرف رومانس یا باکس آفس کے اعدادوشمار پر نہیں، بلکہ اس سوال پر قائم ہے کہ وقت کے شور میں انسان کیسے لاکھوں کروڑوں دلوں میں زندہ رہتا ہے۔

خوبصورتی، ہمت اور تازگی کے ساتھ بدلتے رہنے کا نام ہے اور شاہ رخ خان اس کی جیتی جاگتی تصویر ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے،  انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ