چار نومبر کو ہونے والے میئر کے انتخابات میں 34 سالہ ظہران ممدانی جون میں ڈیموکریٹک پرائمری میں حیران کن کامیابی کے بعد سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر ابھرے ہیں۔
یوگنڈا میں انڈین نژاد خاندان میں پیدا ہونے والے ممدانی سات سال کی عمر میں امریکہ منتقل ہوئے اور 2018 میں امریکی شہریت حاصل کی۔ اگر کامیاب ہوئے تو وہ نیویارک کے پہلے مسلمان میئر ہوں گے۔
ممدانی غزہ کے شہریوں کی کھلم کھلا حمایت اور اسرائیل کے مخالفت کی وجہ سے خبروں میں رہے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ اگر نتن یاہو ان کے دور میں نیویارک آئے تو وہ انہیں گرفتار کروا دیں گے۔
نیویارک کے عوام منگل کے روز اپنے نئے میئر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ اس بار مقابلہ تین مختلف شخصیات کے درمیان ہے: ایک نوجوان بائیں بازو کا امیدوار، ایک سکینڈل زدہ سابق گورنر، اور ایک رپبلکن آؤٹ سائیڈر۔ یہ انتخاب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قریبی نگرانی میں ہو رہا ہے۔
ظہران ممدانی: غیر متوقع پسندیدہ امیدوار
اس کے علاوہ وہ مغربی دنیا کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کے میئر ہو سکتے ہیں۔ ان سے قبل لندن کے میئر صادق خان یہ عہدہ حاصل کر چکے ہیں۔
ممدانی نوجوانوں اور تارکین وطن ووٹرز میں خاصی مقبولیت رکھتے ہیں۔ ان کی مہم کا محور شہر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے، جس کے حل کے لیے وہ کرایوں پر کنٹرول، مفت ڈے کیئر، مفت بس سروس، اور سرکاری سطح پر چلنے والی گروسری دکانوں کا وعدہ کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ انہیں ’چھوٹا کمیونسٹ‘ کہہ چکے ہیں، لیکن ممدانی نے اس تنقید کو نظر انداز کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اینڈریو کومو – تجربہ کار سیاستدان
نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کومو، جنہیں 2021 میں جنسی ہراسانی کے الزامات پر استعفیٰ دینا پڑا تھا، اب بطور آزاد امیدوار واپسی کی کوشش کر رہے ہیں۔ 67 سالہ کومو نے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں 5,000 نئے افسران بھرتی کرنے اور سستی رہائش، صحت اور تعلیم کو فروغ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
کرٹس سلیوا – ری پبلکن آؤٹ سائیڈر
71 سالہ کرٹس سلیوا، جو ’گارڈین اینجلز‘ کے بانی ہیں، جیت کے امکانات تو کم رکھتے ہیں لیکن ووٹ تقسیم کر کے نتیجہ بدل سکتے ہیں۔ سابق میکڈونلڈز مینیجر سلیوا کی مہم مہنگائی، عوامی تحفظ، بے گھروں کی مدد اور جانوروں کے حقوق پر مرکوز ہے۔