تعزیت ایک پُل جیسا کام کرتی ہے لیکن یہ بات سمجھنا تھوڑا مشکل ہے۔
پہلے سادی ترین بات کرتے ہیں۔ کسی شخص کے ہاں کوئی ڈیتھ ہو گئی، آپ شہر میں تھے تو جنازے پہ چلے گئے یا ایک آدھ دن بعد مل لیے، نہیں تھے تو آپ نے دو تین دن بعد کال کر لی، میسج ڈراپ کر دیا ۔۔۔ افسوس ہو گیا۔
اب اگلی بار جب آمنے سامنے ہوں گے تب ایک باضابطہ والی تعزیت ہو جائے گی اور بات ختم۔
لیکن اگر آپ میسج نہیں کرتے، بات نہیں کرتے، ملتے ہیں پر تعزیت نہیں کر پاتے، آپ کو لگتا ہے کہ یار یہ بڑا مشکل کام ہے، کسی کے جانے پر لفظوں کا فائدہ ہی کیا ہو سکتا ہے تو اس میں ایک مسئلہ ہے ۔۔۔ اس بندے سے آپ رابطہ بحال کیسے کریں گے؟
نوجوانوں کو آج کل یہ جینوئن مسئلہ ہے کہ ’بھئی میں کیسے غم کا اظہار کروں؟ کیسے جا کے افسوس کروں؟ میسج میں کیا لکھوں؟ یہ سب تو فارمیلیٹی لگے گا، آپ کسی کی موت پہ آخر کیا لکھ سکتے ہیں؟ جس کا نقصان ہوا ہے وہی جانتا ہے، میرے افسوس کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟‘ وہ سوچتے ہیں یہ سب باتیں اور بعض اوقات قریبی دوستوں سے بھی افسوس نہیں کر پاتے۔
تو وہ پُل ٹوٹ جاتا ہے اس طرح۔ آگے پیچھے بھلے آپ دو سال بعد کسی پرانے دوست سے بات کرتے ہوں لیکن اگلی بار کریں گے تو یہ موضوع پھلانگ کس طرح جائیں گے؟ پُل تو چاہیے ہو گا، کہ نہیں؟
ایسا نہیں ہے کہ آپ کی تعزیت غم بانٹ لے گی یا جو سوگ میں بیٹھا ہے اسے تسلی ہو جائے گی ۔۔۔ کچھ بھی نہیں، بالکل نہیں، ہو سکتا ہے وہ فون ہی نہ اٹھائے، میسج کا جواب نہ دے، آپ کو ٹھیک سے مل نہ سکے، اسے حق ہے، وہ اپنے طریقے سے اس واقعے کا صدمہ سنبھالے گا لیکن آپ کا پُل بنا رہے گا۔
روائتی طور پہ دو طریقے ہیں، اگر آپ میسج کر رہے ہیں تو انا للہ وانا الیہ راجعون لکھ کے ساتھ کوئی بھی تعزیتی جملہ لکھ دیجے اور اگر آپ ملنے جا رہے ہیں تو سلام دعا کے بعد کہیں کہ یار بس خدا کی مرضی تھی اور فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھا دیجے۔
کوئی اور مذہب کے لوگ ہیں تو اس حساب سے ایک سادہ ترین پرسہ دے دیجے۔ آئی ایم سوری کہہ دیجے، سر جھکا لیجے۔
جس سے آپ تعزیت کر رہے ہیں وہ آپ کے لفظوں کو ناپے تولے گا نہیں، آپ چاہے منہ سے کچھ نہ بولیں، ہاتھ ملا لیے، گلے مل لیا بس کافی ہے، یعنی جو کچھ بھی آپ کریں گے وہ سو فیصد بہتر ہو گا اس صورتحال سے کہ اگر آپ سرے سے افسوس ہی نہ کریں۔
اسے یوں دیکھ لیں کہ کسی انسان کی زندگی میں ایک غم کا موقع آیا اور آپ موجود تھے، بے شک بصورت ایک میسج، تو بس وہ سلسلہ پورا ہو گیا، آپ دونوں کے رشتے میں اسے کلوژر مل گیا۔
تعزیت ایسی عجیب چیز ہے کہ اسے آپ فارمیلیٹی نہیں کہہ سکتے، یا تو بعینہ یہ ویسا عمل ہے جیسے میت کو دفنایا جاتا ہے اور یا پھر آپ کہہ لیجے کہ معاشرے میں ایک فرد کے غم کو ایکنالج کرنے کا طریقہ ہے۔
وہی لفظ ہوں گے، وہی طریقہ ہو گا، دو سو بندہ آپ سے وہی بات کرے گا، لیکن ہر آدمی رجسٹر ضرور ہو گا ۔۔۔ اگر وہ شخص جس کے یہاں موت ہوئی، وہ اتنے ہوش میں ہے کہ آپ کو پہچان سکتا ہے تو سوال ہی نہیں کہ زندگی بھر اسے بھول جائے کہ آپ افسوس کرنے والوں میں شامل تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بعض لوگ دل میں حساب بھی رکھتے ہیں کہ تعزیت کس نے کی اور کون نہیں تھا ۔۔۔ میرے خیال میں یہاں نرم دلی اور درگزر کا سلوک رکھنا چاہیے ۔۔۔ کوئی نہیں تھا تو عین ممکن ہے وہ لفظوں کی جنگ میں ہارا ہوا ہو، یا شاید اسے حوصلہ نہ مل پایا ہو کہ اگلے بندے سے آخر اس نقصان کو بانٹا ہی کیسے جائے ۔۔۔ وہ شاید یہ جمع تفریق سمجھتا ہی نہ ہو یا عین ممکن ہے کہ وہ اس وقت خود کسی تکلیف میں مبتلا ہو ۔۔۔ بہرحال شک کا فائدہ دیں اور بندے کو بری کریں، بڑی عمر تک خود ہم بھی ایسے ہی تھے۔
یہ رسم بہرحال ایسی ہے کہ دنیا کے ہر مذہب، ہر معاشرے میں آپ کو اس کا وجود ضرور ملے گا اور وجہ وہی ہے کہ اگر آپ خوشی میں کسی کے ساتھ ہیں تو آپ اس کے قبیلے میں ہوئے، غم والا قبیلہ الگ کیسے ہو سکتا ہے؟
پُل ۔۔۔ اس لیے کہا تھا کہ پُل والی بات مشکل ہے ۔۔۔ لاکھ ہم کہتے رہیں کہ قبائلی رسمیں فرسودہ ہیں، پرانی ہیں لیکن انسان جب تک اکھا اکیلا نہیں ہو جاتا تب تک وہ بہرحال کچھ لوگوں میں رہتا ہے اور ان میں رہتے ہوئے اسے کچھ نہ کچھ ویسے قانون بھی نبھانے پڑتے ہیں جو ہزاروں سال پرانے ہیں ۔۔۔ تو بس تعزیتی میسج سے نہ کترائیں، کوشش کریں، موجود رہیں، پُل بنائے رکھیں ۔۔۔ انسان کو ان فارمل ترین تعلقات میں بھی کبھی کبھی نہایت فارمل ہونا پڑتا ہے۔
یہی قبیلہ ہے، یہی پُل ہے، اور یہی اسے اکٹھا رکھنے کا راستہ ہے۔