’کیہڑی غلطی ہوئی اے ظالم‘ کے خالق منصور ملنگی: سرائیکی گائیکی کا لازوال باب

سرائیکی گائیکی کو ملک کے گوشے گوشے میں مشہور کروانے میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور منصور ملنگی سرِ فہرست ہیں۔

منصور ملنگی صرف سرائیکی تک محدود نہیں، بلکہ انہوں نے اردو اور پنجابی زبان میں بھی گایا ہے (پنجاب فوک/یو ٹیوب سکرین گریب)

پاکستانی لوک موسیقی کی تاریخ پر بات ہو اور حاجی منصور علی ملنگی کے فن اور شخصیت کا حوالہ نہ آئے تو وہ تاریخ کیسے مکمل ہو سکتی ہے؟

سرائیکی زبان کے فروغ میں، اسے سُر اور ساز کا حصہ بنانے اور دنیا کے ہر کونے میں پھیلانے میں جن فنکاروں، گلوکاروں اور شاعروں کا کردار شامل ہے، ان میں ایک معتبر نام حاجی منصور علی ملنگی کا بھی ہے، جنہیں سرائیکی زبان کا لیجنڈ کہا جاتا ہے۔

عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے بقول: ’جب میں نے گائیکی کا آغاز کیا تو اس وقت حاجی منصور علی ملنگی کی شہرت کا ڈنکا بجتا تھا اور ان کے گیت لوگوں میں زبان زدعام تھے۔‘

سرائیکی بولی بھی کیا خوب ہے کہ اگر آپ مٹھاس کو سرائیکی بھی کہہ دیں تو قطعاً غلط نہیں ہو گا، لیکن صرف مٹھاس نہیں ایسی چاشنی جس میں آپ خود کو گھلا ہوا پاتے ہیں اور خود بھی اس کا جز بن جاتے ہیں۔ ایسی بولی جس کی چاشنی میں درد و غم ایسے رچا بسا ہوا ہے کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ سیانے کہہ گئے ہیں کہ جو بولی سُر اور ساز کی زبان بن جائے وہ امر ہو جاتی ہے۔ یہ واحد زبان ہے جس کو پڑھنے سے زیادہ سنا جاتا ہے۔

حاجی منصور علی ملنگی ضلع لیہ اور ضلع جھنگ کے سرحدی علاقے گڑھ مہاراجہ میں یکم جنوری 1947 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد گرامی پٹھان علی ملنگی سارنگی نواز تھے اور لوک گائیکی کے حوالے سے بھی علاقائی شہرت رکھتے تھے۔ اس وقت چوکیاں گانے کا رواج تھا۔ رات کو دیہات میں کسی نمبردار، زمین دار یا کسی بڑی چوپال میں لوگ اکٹھے ہو جاتے اور اس میں گلوکار جا کے رات بھر گایا کرتے تھے، اسے چوکی کہتے ہیں۔ پٹھان علی اپنے دور میں شادی بیاہ اور میلوں ٹھیلوں میں گیت گانے کے حوالے سے اپنا ایک اونچا مقام رکھتے تھے۔

ویسے بھی انہیں خواجہ فرید کے دوہے گانے میں ملکہ حاصل تھا اور انہیں ’فریدی گائیک‘ بھی کہا جاتا تھا۔ وہ خواجہ غلام فرید کے دورِ حیات میں ان سے ملتے تھے اور ان سے کلام حاصل کرتے تھے۔ اس زمانے میں چوکیاں (محفلیں) گانے کا رواج عام تھا۔ جدید ساؤنڈ سسٹم تو تھا نہیں، لوگوں کے پاس تفریح کے مواقع بھی کم تھے، مختلف علاقوں میں کبھی کبھار کوئی چوکی منعقد ہوتی تو اس میں دور دراز سے لوگ شرکت کرتے اور ہزاروں سامعین کو اپنی بلند آواز سے محظوظ کرنا پڑتا تھا۔

راقم کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں حاجی منصور علی ملنگی نے بتایا تھا: ’ہم بچپن میں اپنے بابا کے ساتھ محافل میں جایا کرتے تھے، میرے بابا کی آواز اتنی بلند تھی کہ ہزاروں افراد آسانی سے ان کے گیت سنتے تھے۔‘

منصور علی ملنگی نے آنکھ کھولی تو سُر اور ساز ان کے آنگن میں ان کا استقبال کر رہے تھے۔ ابتدا میں اپنے والد گرامی سے سیکھتے رہے، بعد ازاں بابا جی اے چشتی کے شاگرد بن گئے اور ان کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 18 سال کی عمر میں گانا شروع کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان دنوں ریڈیو کا دور تھا اور آپ نے بھی ریڈیو پاکستان کا رخ کیا۔ وہاں گئے تو علاقائی حدود کا معاملہ سامنے کھڑا ہوگیا۔ سفر کے اعتبار سے ریڈیو پاکستان ملتان قریب تھا، وہاں گئے تو انہوں نے کہا کہ ضلع جھنگ ریجنل طور پر ریڈیو پاکستان لاہور سینٹر کا علاقہ ہے۔ منصور ملنگی لاہور گئے تو انہوں نے کہا کہ سرائیکی زبان کا اپنا سینٹر ملتان ہے تو آپ وہاں جائیں۔

کچھ عرصہ وہ ریڈیو پاکستان کے حکام کے درمیان دھکے کھاتے رہے، بعد ازاں لیہ سے تعلق رکھنے والے ممتاز براڈ کاسٹر ملک عزیز الرحمان اولکھ، جو پروگرام ’جمہور دی آواز‘ میں ملک صاحب کا کردار ادا کرتے تھے، نے اس مسئلے کا حل نکالا اور منصور علی ملنگی کو کبیروالا کا رہائشی ظاہر کر کے انہیں ریڈیو پاکستان ملتان سینٹر پر مستقل کیا۔ منصور علی ملنگی بابا جی اے چشتی کے ساتھ کام کرتے ہوئے متعدد فلموں کی موسیقی میں ان کے معاون رہے۔

1975 میں منصور ملنگی کا پہلا البم ریلیز ہوا، جسے پاک گرامو فون ہاؤس جھنگ نے ریلیز کیا تھا۔ اس البم کا ایک گیت ’اک پھل موتیے دا مار کے جگا سوہنڑیے‘ زبان زد عام ہوا اور شہرت کی دیوی اسی گیت سے ہی منصور علی ملنگی پر مہربان ہو گئی۔

اس کے بعد ان کے گیت ’نکی جئی گل توں رسدئیں‘، ’خان گھڑاڈے بند وے خاناں‘، ’وے ککڑا دھمی دیا‘ بھی شہرت میں اضافے کا سبب بنے۔ یہی گیت بعد ازاں عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی کی شناخت بنے۔ آج بھی سرائیکی وسیب میں شفاء اللہ خان روکھڑی مرحوم کے بیٹے ذیشان خان روکھڑی کی وجہ شہرت مشہور گانا ’کوئی روہی یاد کریندی‘ منصور ملنگی کا 40 سال قبل گایا ہوا گیت ہے۔

انہوں نے صرف سرائیکی زبان میں نہیں گایا بلکہ پنجابی اور اردو زبان میں بھی کمال گایا۔ آج بھی ان کے گیت ’کہڑی غلطی ہوئی اے ظالم‘، ’چھبہ چوڑیاں دا سر تے میں چایا‘، ’ابھے دا ونجارا آیا بولی بولے لماں‘، ’توں اوڈ میں تیری اوڈنی‘، ’یاداں وچھڑے سجن دیاں آئیاں‘، ’وہ جس کا نام بھی لیا پہیلیوں کی اوٹ میں‘، ’مینوں تیرے جیا سوہنڑاں ہور لبھدا ناں‘، ’کوئی روہی یاد کریندی اے‘، ’بوچھنڑ ڈوریے دا‘، ’میتھوں سوں چوالے پھل میں نی تروڑے‘، ’نیندراں نی آندیاں‘، ’بے درد ڈھولا انج نی کرینداں‘، ’بوہتا پیار نہ کریں‘، ’مریض محبت انہیں کا فسانہ‘، ’یاد ہے تیرے انتظار میں ہم‘، ’غم کے گرداب میں سے بچ نکلتا‘، ’تیڈی سانول اگلی ٹور تے نئیں‘، ’کڈنڑ ولسو سوہنا سانول آ‘، ’کالا تل ماہی دا‘، ’بے وفا یوں تیرا مسکرانا‘، ’اکھیاں جل بھریاں‘ عوام والہانہ سنتے ہیں اور ان گیتوں کو اپنے دل کی آواز سمجھتے ہیں۔

منصور علی ملنگی نے دوگانے بھی گائے۔ اپنے دور کی معروف گلوکاراؤں میڈم افشاں اور دیگر نے منصور ملنگی کے ساتھ دوگانے ریکارڈ کرائے۔ منصور ملنگی کے 200 سے زائد آڈیو البمز ریلیز ہوئے۔

انہوں نے خواجہ غلام فرید کی کافیوں ’اَکھ پھَڑکاندی اے‘، ’گزر گیا ڈینہہ سارا مساگ ملیندی دا‘، ’روندے عمر نبھائی وچ وہی دے‘ کو ایسے انداز میں گایا کہ آج تک ایسا انداز گائیکی خواجہ فرید کی ان کافیوں کو کوئی اور نہیں دے سکا۔

2012 میں انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ منصور ملنگی کی وفات کے بعد سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ فیصل آباد نے ان کے نام سے ایک شاہراہ کو منسوب کیا ہے۔ اسی طرح ان کے آبائی شہر گڑھ موڑ میں بھی ملنگی ہاؤس کی جانب جانے والی سڑک کو بھی منصور علی ملنگی روڈ کا نام دیا گیا ہے۔

منصور ملنگی کی گائیکی کی یہ بھی خوبی تھی کہ وہ کومل اور تیور سروں کو جانتے تھے اور انہیں بہ وقت ضرورت استعمال بھی کرتے تھے۔ گیت گاتے ہوئے درمیان میں ماہیا اچھال دینا، دوہڑے کا رنگ بھر کر پھر سے گیت شروع کر دینا ان کا ہی خاصہ تھا اور یہی انداز گائیکی ہی انہیں دوسرے ہم عصر گائیکوں سے ممتاز بناتا تھا اور سامعین کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔

انہوں نے اپنے تمام گیتوں اور غزلوں کی دھنیں خود ترتیب دیں۔ نامور شاعر محسن نقوی ان کے دیرینہ دوستوں میں شامل تھے۔ محسن نقوی مرحوم نے کئی سرائیکی گیت اور غزلیات منصور علی ملنگی کے لیے لکھیں جنہیں منصور علی ملنگی نے اہتمام سے اپنی آواز کی زینت بنایا، جن میں ایک اردو غزل ’وہ جس کا نام بھی لیا پہیلیوں کی اوٹ میں۔۔۔ نظر پڑی تو چھپ گئی سہیلیوں کی اوٹ میں‘ نے عالمی شہرت حاصل کی۔

منصور علی ملنگی دھیمے سروں سے دلوں میں آگ لگانے اور بجھانے کے ماہر تھے، ان کے ماہیے کا انداز تو ایسا تھا جیسے کوئی ماہر نشانے باز اڑتی ہوئی مرغابی کو نشانہ بناتا اور پھر پھڑکتی ہوئی مرغابی کو ہاتھوں میں دبوچ لیتا ہے، منصور ملنگی بھی ماہیا پھینک کر سننے والوں کے دل مٹھی میں کر لیتے تھے۔

منصور علی ملنگی نے دنیا بھر میں اپنے فن کا جادو جگایا۔ زیادہ تر امریکہ، جاپان، یونان، ناروے اور دبئی میں پرفارم کیا۔ وہ اکثر کہتے تھے: ’ہم نے اپنی زبان کی شناخت اور پاکستان کے کلچر کے لیے گائیکی کی ہے، ہم نے دھن دولت کو اپنا مقصد نہیں بنایا۔‘

اور ان کی یہ بات بالکل درست ہے، وہ زمانے کے رنگ میں نہیں رنگے اور دولت کے لیے نہیں گایا، یہی وجہ تھی کہ اکثر مفلوک الحال رہے مگر رب کے سامنے صابر و شاکر رہنے والا یہ شخص انسانوں کے سامنے کبھی نہیں جھکا اور اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

منصور ملنگی نے تین شادیاں کیں جن میں سے 19 بچے (11 بیٹے اور آٹھ بیٹیاں) پیدا ہوئے۔ ان کے بیٹے شاہد منصور، انصار منصور اور مختیار منصور ان کے فن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان دنوں ان کے پوتے جونیئر منصور علی ملنگی کو بھی شائقین موسیقی اپنی پسندیدگی کی سند عطا کیے ہوئے ہیں۔

ان کی اپنی مٹی اور زبان کے ساتھ جڑت کی وجہ سے آج سرائیکی زبان اونچے مقام پر ہے۔ جہاں سرائیکی موسیقی کی ترویج و ترقی اور اسے دنیا بھر میں متعارف کرانے والوں کا تذکرہ آئے گا تو ان میں منصور علی ملنگی کی خدمات سرفہرست ہوں گی اور ان میں پٹھانے خان، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اور منصور علی ملنگی پہلی صف میں موجود ہوں گے۔ آج بھی سرائیکی وسیب کے ممتاز گلوکار شفاء اللہ روکھڑی، شہزادہ آصف اور احمد نواز چھینہ منصور علی ملنگی کے انداز گائیکی کو اپنائے ہوئے ہیں۔

راقم سے منصور علی کی یاد اللہ بہت پرانی تھی۔ وہ اکثر ناچیز کے ہاں تشریف لایا کرتے تھے۔ 10 دسمبر 2014 کو منصور ملنگی ہماری منعقدہ تقریب، جو ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان لاہور آصف کھیتران کی تاج پوشی کے سلسلے میں منعقد کی گئی تھی، میں مدعو تھے۔ تقریب سے قبل ہی گھر میں انہیں دل کی تکلیف ہوئی اور قریبی کلینک میں انہوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کر دی۔

منصور صاحب سے میری آخری ملاقات ان کی وفات سے دس روز پہلے ہوئی۔ میں نے چوک اعظم میں اس وقت کے ڈپٹی کنٹرولر ریڈیو پاکستان ملتان سردار آصف خان کھیتران کے اعزاز میں ’تاج پوشی‘ کی محفل منعقد کرنا تھی، سو اس تقریب کی دعوت دینے کی غرض سے میں گڑھ موڑ ان کی رہائش گاہ حاضر ہوا۔

سردیوں کے دن تھے، ان کے مہمان خانے کے باہر ہم بیٹھے رہے۔ لیہ کی موسیقی کی تاریخ پر ان کی مستند گفتگو سنتا رہا۔ خصوصاً استاد پٹھانے خان کے بارے میں ان کی معلومات اہم تھیں۔ انہوں نے ہی بتایا کہ پٹھانے خان لیہ میں اپنے وقت کی معروف گائیکہ نذیری بیگم کے پاس رہا کرتے تھے اور ان کے ساتھ ہارمونیم بجاتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا پٹھانے خان کو بھنگ پینے کی لت بھی نذیری بیگم کے بھائی سے لگی، وہ پیپل والی گلی میں سارا دن اپنی بیٹھک میں بھنگ گھوٹ کر فروخت کیا کرتا تھا۔

منصور صاحب نے بتایا تھا کہ لوگ پٹھانے خان اور یاسین کی محبت بارے جانتے ہیں لیکن پٹھانے خان کا اصل عشق نذیری بیگم تھیں، جنہیں وہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

منصور صاحب کو میں نے دعوت دی تو انہوں نے قبول کر لی۔ ان کی وفات کے روز دن کو فون کیا اور شام کو آنے کے شیڈول کے بارے میں بات کی۔ کہنے لگے: ’مجھے اپنی محبوب بوتل سے ملاقات کہاں کرنی ہو گی؟‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا: ’حضور اس بوتل سے ملاقات اپنے مہمان خانے میں ہی کیجیے گا اور پھر ہماری طرف آجائیے گا۔‘

شام ڈھلی، میں انتظار کر رہا تھا، تقریب کے انتظامات مکمل ہو چکے تھے، ان کے شاگرد گلوکاران احمد نواز چھینہ اور شہزادہ آصف علی بھی پہنچ چکے تھے کہ اچانک بشیر تبسم نے اطلاع دی کہ ٹی وی پر منصور علی ملنگی صاحب کی وفات کی خبر نشر ہو رہی ہے۔

وہ بلاشبہ ایک عظیم گلوکار ہونے کے ساتھ ایک انتہائی اچھے، ایثار کیش اور ہمدرد انسان تھے۔ کہتے ہیں نام کا اثر ہوتا ہے تو مجھے کہنے دیجیے کہ وہ اس دور کے منصور تھے اور ملنگی بھی۔ جب تک سرائیکی موسیقی زندہ ہے منصور کا نام بھی زندہ رہے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ