سرائیکی شاعر ’ابراہیم غریب مسافر‘، جو عمر بھر غریب بھی رہے اور مسافر بھی

ابراہیم غریب نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تحریکِ قیام پاکستان، مجلس احرار کے جلسوں میں نظمیں پڑھنے اور غازی علم دین شہید کی رہائی کی تحریکوں میں بسر کیا۔

ابراہیم غریب مسافر میانوالی شہر کے محلہ فتح شیر میں 1901 میں پیدا ہوئے (محمد صابر عطا)

’د دَرزی ہک قمیض سِی ڈے جیہڑی کہیں دے معشُوق نہ پائی ہووے

گَز حُسن دے نال تُوں ناپ گِھنے قینچی عشق دے نال کٹائی ہووے

دھاگے فِراق دے نال تُوں سِی ڈیویں سُوئی ہِجر دے نال سِلائی ہووے

اِبراہیم آکھے جَد مِلنڑ میں وَنجاں اُوہا گل سجنڑاں نیں پائی ہووے ‘

سرائیکی زبان کا یہ دوہڑا آج بھی زبان زد عام ہے اور جوں ہی یہ دوہڑا شائقین موسیقی عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی صاحب کی زبان میں سنتے ہیں تو پہلے ہی مصرعے پر داد دینا شروع کر دیتے ہیں۔

اس دوہڑے سے شاعر کا رومان پرور ہونا ظاہر ہوتا ہے لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ اس دوہڑے کے خالق نے اپنی  زندگی کا بیشتر حصہ تحریکِ قیام پاکستان، مجلسِ احرار کے جلسوں میں نظمیں پڑھنے اور غازی علم دین شہید کی رہائی کی تحریکوں میں بسر کیا۔

سرائیکی وسیب کے یہ عظیم شاعر ابراہیم غریب مسافر میانوالی کے محلہ فتح شیر میں 1901 میں پیدا ہوئے۔

وہ اپنی سکونت کے بارے میں اپنے مجموعہ کلام ’محبت کا دیوانہ‘ میں لکھتے ہیں۔

’میڈی خاص سکونت میانوالی، جِتھے پرورش پَیندے رَہے ہاں

محلہ فتح شیر دا ہے جِتھے جَھٹ گُزریندے رَہے ہاں

ہِجر فراق دے جھولاں دے اساں سیک وی  سیہندے رَہے ہاں

اِبراہیم مُسافر دِلبر دا دیدار کریندے رہے ہاں‘

ابراہیم غریب مسافر نے ابتدائی تعلیم میانوالی سے حاصل کی۔ انہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی رسمی طور پر حاصل کی۔

کچھ عرصہ وہ حجامت کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور لاری اڈے پر اپنا ٹِھیہ لگائے رکھا۔

عطا اللہ خان عیسی خیلوی سمیت متعدد گلوکاروں نے ان کے گیت اور دوہڑے گائے۔

وہ دور دوہڑے کا تھا، اس لیے عطا اللہ خان عیسی خیلوی نے ان کے لکھے ہوئے زیادہ تر دوہڑے گائے۔

غالبا ان کے کلام پر دو البم ریلیز ہوئے جس میں ان کا دوہڑہ ’د درزی توں قمیض سی ڈے جیہڑی کہیں دے معشوق نہ پائی ہووے‘ زبان زد عام ہوا۔

ان کے بارے میں واں بھچراں کے صحافی روشن ملک لکھتے ہیں ’ابراہیم مسافر کی عمر کا زیادہ حصہ میانوالی کے معروف روحانی بزرگ میاں سلطان علی مرحوم کے ساتھ گزرا۔

’وہ اپنے اندر ایک مکمل روحانی شخص بٹھائے ہوئے تھے۔‘

ابراہیم غریب مسافر کی 74 سالہ زندگی کا جائزہ لیں تو وہ اپنے نام کی عکاسی کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ وہ عمر بھر غریب بھی رہے اور مسافر بھی، لیکن وہ دل کے غریب کبھی نہ تھے۔

سخی طبعیت کے مالک ابراہیم غریب پورا بر صغیر گھومتے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ سید عطا اللہ شاہ بخاری کے بھی عقیدت مند تھے اور اسی وجہ سے مجلس احرار کے سرگرم کارکن شاعر تھے۔

جہاں بھی خاکسار  تحریک یا احرار کا جلسہ ہوتا، ابراہیم مسافر اپنے کلام کے ساتھ حاضر ہوتے اور جلسوں میں ماحول کو گرماتے۔

معروف قانون دان و مصنف کے ایل گابا کے انتخابات کے دوران امرتسر اور گردو نواح میں جلسوں میں جاتے اور الیکشن مہم میں حصہ لیتے رہے۔

کسان مزدور کامریڈ رہنما بابا غلام کبریا جو مولانا بھاشانی کے قریبی دوست تھے، قیام پاکستان کے بعد وہ ہمارے شہر چوک اعظم کے نواحی اڈہ بھاگل پر مقیم ہوئے تھے۔

انہوں نے مجھے ایک ملاقات میں بتایا کہ ابراہیم غریب مسافر شاعر سے ان کی بہت سی ملاقاتیں رہییں۔

وہ ایک دوبار غلام محمد نامی میانوالی کے شاعر کے ساتھ حبیب جالب کے ہمراہ مولانا بھاشانی اور باچا خان سے بھی ملنے آئے تھے۔

میں نے محسوس کیا کہ وہ مذہب بے زار نہیں تھے، ایک سچے عاشق اور عاشق رسول تھے۔ پکے احراری تھے۔

مولانا بھاشانی کے دوست افتخار احمد کی سفارش پر کلکتہ پرنٹنگ پریس سے ان کا مجموعہ کلام شائع کروایا گیا۔

ابراہیم غریب مسافر کے پڑنواسے اقبال ساقی مرحوم سرائیکی کے گیت نگار تھے۔

ان کے مطابق ابراہیم کا تخلص غریب تھا لیکن مجلس احرار سے وابستگی کے باعث ہر جلسے میں شریک ہونا سید عطا اللہ شاہ بخاری کی قربت کا سبب بنا۔

ایک دن شاہ جی نے کہا کہ ’ابراہیم ہر وقت مسافر ہے۔‘ سو اس دن کے بعد انہوں نے شاہ جی کے دیے گئے تخلص کو اپنے نام کا حصہ بنا لیا۔

اقبال ساقی بتاتے ہیں کہ وہ کتابچے شائع کرتے اور انہیں فروخت کرکے روزگار کماتے۔

بس اڈوں اور بازاروں میں کھڑے ہو کر آزادی کی نظمیں پڑھتے اور لوگوں میں قیام پاکستان کی تحریک کے جذبات جگاتے۔ (تاہم ان کا میسر کلام بہت کم ہے، جس وجہ سے بہت سی نظمیں نہیں مل رہیں)

عرض کرتا چلوں کہ ان کی ساری زندگی عشقِ رسول میں گزری۔ انہوں نے نعتیں بھی لکھیں۔

غازی علم دین شہید کی رہائی تحریک اور ابراہیم غریب مسافر

ابراہیم غریب میانوالی میں ان رہنماؤں میں ایک ایسے سپاہی تھے، جو غازی علم دین شہید کی رہائی کے لیے جیل توڑنے کا منصوبہ بنانے والوں کے ساتھ شریک رہے۔

جب غازی علم دین شہید کو پھانسی دی جانے لگی تو میانوالی جیل کے باہر سینکڑوں لوگوں نے تین دن محاصرہ کیے رکھا، ان میں ابراہیم غریب مسافر شامل تھے، بلکہ پیش پیش تھے۔

جب 31 اکتوبر، 1929کو غازی علم دین شہید کو پھانسی دی گئی تو ان کی میت کو وصول کرنے کے لیے میانوالی بھر سے ہزاروں افراد جیل کے باہر جمع ہو گئے اور انہوں نے جیل  انتظامیہ پر ہلہ بول دیا۔

اس حملے میں انگریز آفیسر کے ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی، جس کے مقدمے کی پاداش میں متعدد افراد کو سزا ملی۔

جن افراد کو گرفتار کیا گیا ان میں ابراہیم غریب مسافر شامل تھے۔ یوں ابراہیم غریب مسافر کو نو ماہ قید کی سزا بھگتنا پڑی۔

غازی علم دین شہید کی میت فوری طور پر جیل کے قریبی پلاٹ میں امانتاً دفن کر دی گئی، جسے 14 نومبر کو نکال کر ورثا کے حوالے کیا۔

انگریز آفیسرز مقامی افراد سے پہلے ہی خوف زدہ تھے، انہیں علامہ محمد اقبال نے یقین دہانی کروائی کہ اب ایسا کچھ نہیں ہوگا، جن کی یقین دہانی پر ابراہیم غریب مسافر اور ان کے ساتھی خاموش رہ گئے۔

ابراہیم غریب مسافر کا پہلا شعری مجموعہ ’محبت کا دیوانہ‘کے نام سے شائع ہوا، جس پر اس وقت کی قیمت 40 پیسہ درج ہے۔

اس مجموعہ کلام ’کتابچے‘ میں ان کے سرائیکی دوہڑے اور گیت شامل ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس مجموعہ کلام میں قوالیاں بھی شامل ہیں۔

یہ اعزاز بھی سرائیکی شاعر کے طور پر ابراہیم مسافر کو جاتا ہے، جنہوں نے قیام پاکستان سے قبل سرائیکی زبان میں قوالیاں لکھیں۔

’او ڈیکھو ڈسدا پیا روزہ رسول دا

ساوا جھیا جھنڈہ جھلے رب دے مقبول دا‘

عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کے ابتدائی زمانے میں ان کی زبان میں مخصوص انداز کے لکھے دوہڑے مقبول ہوئے تھے، جن کا آغاز ’آ وے ماہی تیکوں رب گھن آنڑے‘ سے ہوتا تھا۔

اس طرح کے تانگھ اور مونجھ کے موضوعات پر متعدد دوہڑے بھی اسی مجموعہ کلام میں شامل ہیں۔

اسی کیفیت کا ایک دوہڑہ ملاحظہ فرمائیں۔

’آوے ماہی رب تیکوں آنڑے پردیس کیوں وطن بنڑا چھوڑئی

یار شناء تے سنگی ساتھی ہر کئیں کوں ہار بھُلا چھوڑَئی

میڈی نازاں پالی جِندڑی کوں کیوں دَر دَر یار رُلا چھوڑَئی

وَل وَطن تے یار اِبراہیم مُسافر میڈے گل کیوں رونڑا پاء چھوڑَئی‘

اسی مجموعہ کلام میں ان کی ایک اور موضوع ’ہِیر کا ماں جواب‘ کے نام سے دوہڑوں کی سیریز موجود ہے۔

’رانجھے وَلوں میکوں ہوڑ نہ مائے میں تاں نال رانجھے دے ویساں

رانجھا کَھسیں تے کھیڑے ڈَسیں میں تاں بھاء کھیڑاں کوں لَیساں

رانجھا میڈا تے میں رانجھے دی میں مکھ رانجھے کوں ڈیساں

ابراہیم رانجھا ہے قبلہ کعبہ کر سجدہ سِیس نِویساں‘

ابراہیم غریب مسافر نے اپنی شاعری میں تقریباً تمام اصناف پر طبع آزمائی کی ہے۔

ان کا ایک ایسا مجموعہ کلام ملا ہے، جس کے اوراق بوسیدہ ہیں، اس کا عنوان خدا جانے کیا تھا، مگر اس مجموعہ کلام میں انہوں نے حروف تہجی کے اعتبار سے دوہڑے کہے ہیں، یعنی ’الف‘ سے لے کر ’یے‘ تک ہر حرف سے آغاز کرتے ہوئے دوہڑے لکھے ہیں۔

ابراہیم مسافر کی شاعری میں جہاں ہجر و فراق، پردیس اور دیس کے موضوعات ملتے ہیں، وہیں انہوں نے نظموں کی جگہ دوہڑوں میں سماجی موضوعات کو بھی جگہ دی۔

ان کا دوہڑا ’آٹا موٹیاں کھا چھوڑیا‘ ہو یا ’غریب دا حال‘ سماجی رویوں پر ضرب لگاتے ہوئے ملتے ہیں۔

ابراہیم غریب مسافر کا بہت سا کلام میسر نہیں ہوسکا، جن میں ان کا تحریک قیام پاکستان، مجلسِ احرار کے جلسوں میں پڑھا جانے والا کلام بھی شامل ہے۔

ان کی غازی علم دین شہید کی رہائی پر لکھی گئی نظمیں جو بقول اقبال ساقی دستیاب نہیں ہو سکیں، کا کہنا ہے کہ ابراہیم غریب مسافر کی وفات کے بعد متعدد محققین و شعرائے کرام نے ان کی کتاب شائع کروانے کے لیے ان کا شعری مواد حاصل کیا اور وہ کہیں گم ہوگیا۔

سرائیکی ادبی سنگت میانوالی نے بھی ان کے منتخب کلام پر مجموعہ کلام ’ہرن چنڈور ‘ شائع کرنے کا اہتمام کیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ حریت کا یہ عظیم رہنما، اپنے عہد کا تاریخ ساز شاعر کسمپرسی کے عالم میں 1982 میں اس عالم فانی سے کوچ کر گیا۔

وہ اپنے محبوب حضرت سلطان زکریا کے مزار کے قریب مدفون ہیں۔

نمونہ کلام

اللہ بیلی ہووی یار مسافرا وطن تساڈا دُور اے

ٹردے ویلے کوئی نشانی ڈتی ونجنڑاں یار ضرور اے

یاد تساڈی بھلسی نہیں میری عرضیں کرو منظور اے

ابراہیم یار پردیسیاں دی ہوندا دل دا خاص قصور اے

میکوں کا علاج

بٹھ پئی یاری پردیسیاں دی پردیسیاں نال نہ لاویں

مٹھا یار وطن دا ہوندا جیندے کول ہمیشہ راہویں

ہجر و چھوڑا نہ تھیسی آ،نہ روندیاں عمر لنگھاویں

ابراہیم غریب نصیحت کریندا کوئی وطن دایار بنڑاویں

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ