اسلام آباد سے لاہور واپسی کا سفر درپیش تھا، دوست ہم رکاب تھے، گاڑی میں گانے سنتے اور سر دھنتے ہوئے ہم چلے جا رہے تھے، ایسے میں کسی نے میر حسن کی غزل ’ہم نہ نکہت ہیں نہ گل ہیں‘ لگا دی۔
یہ غزل ہم پہلے بھی کئی مرتبہ میڈم نور جہاں کی آواز میں سن چکے تھے لیکن اس روز کچھ زیادہ ہی لطف آیا۔ دوستوں کی قربت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ چند دن بعد میں نے یہ غزل دوبارہ یو ٹیوب پر تلاش کی تو پتہ چلا کہ نور جہاں کے علاوہ اسے عابدہ پروین اور ایک بنگالی گلوکارہ شکیلہ احمد نے بھی گایا ہے۔
مجھے موسیقی کی تکنیک کا تو علم نہیں مگر کوئی گانا گا رہا ہو تو یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ بے سرا ہے یا سریلا۔ بالکل اسی طرح جیسے آملیٹ کھا کر بتایا جا سکتا ہے کہ اچھا بنا یا نہیں۔
ان تینوں گلوکاراؤں کو سننے کے بعد یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس نے یہ غزل سب سے بہتر گائی۔ میں نے سوچا کہ چلو جنرل ضیا الحق کی طرح ریفرنڈم کروا لیتے ہیں۔ سو، سوال بنایا کہ کیا آپ کے خیال میں عابدہ پروین نے یہ غزل عمدگی سے نہیں گائی؟ نتیجہ آیا توعابدہ پروین پہلے نمبر پر رہیں۔
اس ریفرنڈم نے دوستوں کے درمیان بحث چھیڑ دی کہ کسی بھی گیت کی کامیابی میں موسیقار، گلوکار اور شاعر کا کتنا حصہ ہوتا ہے۔
میں چونکہ محمد رفیع کا پرستار ہوں، اس لیے میری رائے تھی کہ اس عظیم گلوکار کو کوئی بھی گانا دے دیں، وہ اسے چار چاند لگا دے گا۔ لیکن شعیب منصور صاحب نے ایسے دلائل دیے کہ مجھے رائے تبدیل کرنی پڑی۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم رفیع صاحب کی گائیکی پر انہیں داد دے رہے ہوتے ہیں تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رفیع صاحب اس داد کے مستحق ہوتے ہیں مگر ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جن باریکیوں کی وجہ سے ہم رفیع صاحب پر فریفتہ ہو رہے ہوتے ہیں وہ موسیقار او پی نیر کی مرہون منت ہیں۔
او پی نیر ایسے موسیقار تھے جن کی برصغیر میں کوئی مثال نہیں ملتی، اگر آپ ان کے تخلیق کردہ گانوں کی فہرست گوگل کریں تو آپ کو اس آدمی سے عشق ہو جائے گا کہ کوئی ایسا جادوگر بھی ہو سکتا ہے جو ایک کے بعد ایک سحر انگیز دھنیں ترتیب دے۔
او پی نیر نے اس بات کو اپنے لیے چیلنج بنا لیا تھا کہ وہ لتا منگیشکر سے گانا گوائے بغیر محض اپنی موسیقی کے زور پر گانا ہٹ کروائے گا اور انہوں نے ایسا کر کے دکھایا۔
انہوں نے لتا کی بجائے آشا بھوسلے سے گانے گوائے اور اسے وہ آشا بنایا جسے ہم آج جانتے ہیں۔ ان تمام باتوں کا یہ مطلب نہیں کہ فقط موسیقار ہی سب کچھ ہوتا ہے، ہر معاملے کی طرح اس مسئلے میں بھی استثنیٰ موجود ہیں، مثلاً ’چولی کے پیچھے کیا ہے‘ کی دھن، شاعری اور گائیکی میں سے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس گانے کے ہٹ ہونے میں زیادہ حصہ کس کا تھا، لیکن بہرحال اسی دھن اور گائیکی کے ساتھ اگر اس گانے کے بول ہوتے ’اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی‘ تو یہ گانا وہ نہ ہوتا جو آج ہے۔
اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ جب ہم غیر ملکیوں کو نصرت فتح علی خان کی قوالی پر جھومتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ظاہر ہے کہ انہیں شاعری کی تو ککھ سمجھ نہیں آ رہی ہوتی، دھن ہی انہیں دیوانہ بنا رہی ہوتی ہے۔
اسی طرح جب ہم خود غیر مانوس زبانوں کے گانے سنتے ہیں اور ان کی دھنوں پر تھرکتے ہیں تو اس وقت ان کا ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آ رہا ہوتا، یہ موسیقی ہی ہوتی ہے جو ہمیں ناچنے پر مجبور کرتی ہے۔ سو، پیارے بچو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمومی طور پر کسی گانے میں دھن کے 50 نمبر ہوتے ہیں، گائیکی کے 30اور شاعری کے 20، یہ تین عناصر ہوں تو بنتا ہے گانا!
آپ میں سے جو لوگ اب تک اس بات سے متفق نہیں ہو سکے ان کی خدمت میں ساحر لدھیانوی کی مثال پیش ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساحر کا خیال تھا انہیں فلمی شاعر کے طور پر اتناہی معاوضہ ملنا چاہیے جتنا میوزک کمپوزر کو دیا جاتا ہے۔ اس ’جدو جہد‘ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پروڈیوسروں نے انہیں ایس ڈی برمن اور او پی نیئر کے ساتھ لینا چھوڑ دیا۔ اس کی وجہ سے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں ساحر لدھیانوی، این دتا، جے دیو اور دیگر کم نامور موسیقاروں کے ساتھ کام کرنے پر مجبور ہو گئے۔
ایک غلطی ساحر نے یہ بھی کی کہ انہوں نے بنی بنائی دھنوں پر گیت لکھنے سے انکار کر دیا جو کہ بالی وڈ میں عام رواج تھا، تمام بڑے فلمی شاعر جیسے مجروح سلطان پوری، شیلندر، راجندر کرشن، حسرت جے پوری اور قمر جلال آبادی، بنی بنائی دھنوں پر گانے بناتے رہے اور کامیاب رہے، لیکن ساحر یہ کام نہ کر سکے۔
فلم سازوں کی ضرورت اچھے موسیقارکی تھی جو فلم کے لیے ہٹ گانے بنا کر اسے کامیاب کر سکے، سو جو معاوضہ موسیقار کو ملتا تھا وہ کبھی شاعر کو نہ مل سکا۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج میں نے یکایک یہ کون سا راگ چھیڑ دیا ہے تو عرض ہے کہ کل محمد رفیع کی برسی تھی، خیال تھا کہ اس عظیم گلوکار کے بارے میں کچھ لکھوں گا، یہی سوچ کر قلم اٹھایا تھا کہ بات کہیں سے کہیں نکل گئی۔
امید ہے قارئین میری اس قلم آوارگی کو معاف فرمائیں گے، ویسے بھی ملک میں جوحالات ہیں ان میں موسیقی کی نزاکتوں کے بارے میں لکھنا ایسے ہی جیسے غریب عوام کو مشورہ دینا کہ اگر روٹی نہیں ملتی تو کیک کھا لیں۔
ویسے یہ مشورہ اتنا برا بھی نہیں، کیک ہی کھا لیں تو بہتر ہے، روٹی سے سستا ہے!
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔