’سات سروں کا بہتا دریا‘: پنجابی فلموں کے آخری بڑے موسیقار

70 کی دہائی وزیر افضل کے لیے کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی لیکن انہوں نے ’جا، اج توں میں تیری، تو میرا سجناں وے ‘ جیسے کچھ لازوال گیت کمپوز کر دیے کہ اگر ان کے علاوہ کچھ بھی نہ بناتے تب بھی امر ہو جاتے۔

پنجابی فلموں کے لاجواب موسیقار وزیر افضل  87 برس کی عمر میں سات ستمبر کو چل بسے (فوٹو: یوٹیوب ویڈیو سکرین گریب/ گپ شپ ود آفتاب اقبال)

اگر آپ کو موسیقی سے ذرا بھی دلچسپی ہے تو آپ نے ’میرا لونگ گواچا،‘ ’شکوہ نہ کر گلہ نہ کر،‘ ’سیونی میرے دل دا جانی،‘ ’کیندے نے نیناں،‘ ’چھاپ تلک سب چھین لی،‘ ’سات سروں کا بہتا دریا‘ جیسے گیت ضرور سنے ہوں گے۔ ان گیتوں کے خالق وزیر افضل گذشتہ روز ہم سے جدا ہو گئے۔

وزیر افضل کون تھے، اور فن کی بلندیوں تک کیسے پہنچے، اس کی روداد پیش کی جا رہی ہے۔

بمبئی کی فلم نگری میں 14 دسمبر 1951 کو ریلیز ہونے والی فلم آوارہ کے ایک گیت ’گھر آیا میرا پردیسی‘ نے سرحد کے دونوں طرف سامعین کو پاگل کر دیا اور لاہور کی نجی محفلوں سے لے کر ہوٹلوں اور شاہی محلے کے چوباروں سے گونجتی دلفریب آوازوں تک ہر جگہ اسی گیت کی حکمرانی تھی۔

لاہور کی چہل پہل کے مرکز مال روڈ پر واقع سٹینڈرڈ ہوٹل میں ایک دن اس عہد کے سب سے بڑے موسیقار ماسٹر غلام حیدر آ نکلے۔ تب ذرا مالدار لوگوں کی آمد و رفت والے ہوٹلوں پر بالعموم سنگیت کاروں کی ایک منڈلی جمی رہتی۔ اس وقت کے مشہور گیت مدھم سروں میں سن کر بابو لوگوں کی طبیعت سنبھل جاتی اور بدلے میں سازندوں اور گلوکاروں کو چار پیسے مل جاتے۔ وہیں کچھ نوجوان مختلف ساز بجا رہے تھے۔ ماسٹر غلام حیدر نے ایک نوجوان کو اشارے سے بلایا اور کہا: ’دیکھو اگر تم مینڈولین سیکھ لو تو بہت زبردست رہے گا۔‘

ماسٹر غلام حیدر کے قد کاٹھ سے اچھی طرح آگاہ اس نوجوان نے اگلے دن جا کر 40 روپے کا مینڈولین خرید لیا۔ یہ کوئی اور نہیں پنجابی فلموں کے لاجواب موسیقار وزیر علی تھے۔

موسیقی کے حوالے سے ایک انتہائی معتبر شہر پٹیالہ میں چار جون 1934 کو وزیر علی کا جنم ہوا۔ بٹوارے کے وقت وہ لاہور آ گئے۔ کراچی میں ریڈیو سٹیشن کے قیام کے ساتھ ہی کچھ سازندوں کی بھرتی کا اشتہار نکلا۔ یہ لاہور سے وہاں پہنچے اور سرود پر اپنی مہارت کی وجہ سے ملازمت پر رکھ لیے گئے۔ تنخواہ معمولی اور رہنے کا مناسب بندوبست ناقص تھا، سو روشنیوں کے شہر میں سنہرے دنوں کی امیدوں پر خدشات کے سائے گہرے ہونے لگے۔ تقریباً ایک سال بعد وزیر علی نے اپنے خواب سمیٹے اور واپس لاہور کا رخ کیا۔

لاہور میں ان کی ملاقات اے حمید سے ہوئی جو سٹینڈرڈ ہوٹل کے طائفے میں شامل تھے۔ وہ انہیں بھی اپنے ساتھ لے گئے جہاں ان کے ایک دوست ظہیر وائلن، اے حمید پیانو اور وزیر علی سرود بجاتے تھے۔ اے حمید بعد میں خود بہت اچھے موسیقار بنے۔ وہیں انہیں ماسٹر غلام حیدر نے مینڈولین بجانے کا مشورہ دیا۔ اس وقت یہ ساز عام نہ تھا لیکن ’گھر آیا میرا پردیسی‘ میں اس کے انتہائی خوبصورت استعمال سے ماسٹر صاحب جیسے دور رس انسان پر واضح کر دیا تھا کہ مستقبل کی فلمی موسیقی کے لیے مینڈولین ناگزیر ہو گا۔

مینڈولین سیکھنے کے بعد انہیں کبھی کام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ مختلف ریکارڈنگز میں اکثر ان کی آمد کا انتظار کیا جانے لگا۔ ان کے مینڈولین کا جادو دیکھنا ہو تو ابتدائی برسوں کے ایک اردو گیت ’صدا ہوں اپنے پیار کی‘ (رشید عطرے،انار کلی 1957) یا پنجابی گیت تو ’چور میں تیری چوری بلوچا ہانیا‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

’تو چور میں تیری چوری بلوچا ہانیا‘ پنجابی زبان کی شاہکار فلم ’ہیر رانجھا‘ (1970) سے ہے جس کے موسیقار خواجہ خورشید انور تھے۔ وزیر علی واحد موسیقار ہیں جنہیں خواجہ خورشید انور کا گنڈا بند شاگرد ہونے کا اعزاز حاصل ہوا اور وہ ہمیشہ اس بات پر فخر کیا کرتے تھے۔

اس میں حیرت کی بات یہ ہے کہ خواجہ صاحب کا گھرانہ گانے بجانے سے وابستہ نہیں تھا بلکہ وہ ’آؤٹ سائیڈر‘ تھے جبکہ وزیر کا تعلق موسیقار گھرانے سے تھا۔ موسیقار گھرانوں کو خود اور اپنے ورثے پر ہمیشہ بہت مان رہا لیکن اس کے باوجود وزیر ایک ’آؤٹ سائیڈر‘ کے شاگرد بنے۔ اسی سے اندازہ کیجیے کہ ان کی نظر میں خواجہ خورشید انور کا مرتبہ کیا تھا۔ وہ تقریباً 20 برس تک خواجہ صاحب سے اصرار کرتے رہے تب جاکر انہوں نے 70 کی دہائی میں انہیں اپنا باقاعدہ شاگرد کیا۔

خواجہ صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر علی بتاتے ہیں کہ جن دنوں خواجہ صاحب کو ’انتظار‘ (1956) کی موسیقی ترتیب دینا تھی انہوں نے مجھے بلوا بھیجا۔ خورشید انور بہت خوش لباس انسان تھے۔ اس دن تھری پیس سوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے اس لیے وزیر علی نے دیکھتے ہی کہا یہ تو کوئی بابو ٹائپ شخص ہے یہ کیسے موسیقی دے گا۔ لیکن بہت جلد وہ خواجہ صاحب کو پہچان گئے۔

 خواجہ خورشید انور کی اکثر فلموں کی طرح ان کی آخری فلم ’جٹ مرزا‘ (1982) میں بھی وزیر علی ان کے اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر تھے۔ اس وقت تک وزیر علی، وزیر افضل بن کر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے تھے لیکن پھر بھی وہ شوق سے خواجہ خورشید انور کے اسسٹنٹ بنے۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر افضل نے خواجہ خورشید انور کو دیوتا کی طرح پوجا ہے۔

جب وزیر علی مینڈولین پلیئر سے موسیقار وزیر افضل بن گئے

دراصل وزیر افضل موسیقاروں کی ایک جوڑی تھی جو وزیر علی اور ان کے بھتیجے محمد افضل پر مشتمل تھی۔ 1968 میں یہ جوڑی ٹوٹ گئی اور وزیر علی نے وزیر افضل کے نام سے ہی کام جاری رکھا۔ بالعموم جب وزیر افضل کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وزیر علی ہی ہوتے ہیں۔

ابتدا میں وزیر افضل فلموں کی پس پردہ موسیقی ترتیب دیا کرتے تھے۔ انہیں پنجابی فلموں کے معروف ہدایت کار اسلم ایرانی نے اپنی فلم ’چاچا خواہ مخواہ‘ (1963) کی پس پردہ موسیقی کے لیے سائن کرلیا۔ اسلم ایرانی کی اپنے مستقل موسیقار بابا جی اے چشتی سے اَن بن ہو گئی اور وزیر افضل کو کچھ گیت ترتیب دینے کا موقع مل گیا۔ منیر حسین اور عنایت حسین بھٹی کی آوازوں میں ان کا پہلا ہی گیت مقبول ہوا ’ایتھے وگدے نے راوی تے چناں بیلیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی اگلی فلم ’زمین‘ (1965) مہدی حسن کے ایک انتہائی لاجواب گیت کی وجہ سے امر ہو گئی۔ مشیر کاظمی کے لکھے گیت ’شکوہ نہ کر گلہ نہ کر یہ دنیا ہے پیارے،‘ کی دھن اور مہدی حسن کی پرسوز آواز آج بھی دل درد سے بھر دیتی ہے۔ وزیر افضل اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ ’میں پوری رات جاگ کر اس گیت کی فکر میں غلطاں رہا۔ صبح سویرے ایک طرف اذان کی آواز بلند ہوئی تو دوسری طرف اس گیت کے خدوخال واضح ہونے لگے۔‘ گیت کے لیے ان کی جو تڑپ تھی وہ پوری طرح اس میں جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے۔

اپنی تیسری فلم ’دل دا جانی‘ (1967) سے وہ نہ صرف شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے بلکہ اپنی فنی مہارت کی دھاک بٹھانے میں بھی کامیاب رہے۔ جب آپ ’سیونی میرے دل دا جانی‘ سننے بیٹھتے ہیں تو حزیں قادری کے سادہ بول، میڈیم نور جہاں کی درد میں ڈوبی آواز اور وزیر افضل کی سُچی دھن دل کی فضا کو پوری طرح سوگوار کر دیتی ہے ۔ اس فلم کے دیگر مشہور گیتوں میں ’تینوں سامنے بٹھا کے شرماواں‘ اور ’وے میں آپ نہ لائیاں وے‘ شامل ہیں۔

شہرت کی دیوی مہربان ہوئی تو وزیر افضل پر سٹوڈیوز کے دروازے بھی کھلنے لگے۔ انہیں اگلے برس دس فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا۔ انہی میں سے ایک فلم ’مہندی‘ (1968) میں انہوں نے مہدی حسن کی آواز میں ایک انتہائی خوبصورت پنجابی گیت ریکارڈ کیا ’دکھ لباں تے نہ آوے۔‘ اس سے پہلے مہدی حسن نے محض ایک پنجابی گیت بخشی وزیر کی موسیقی میں ’ہیر سیال‘ (1965) کے لیے گایا تھا ’موجو تخت ہزارے دا چوہدری سی۔‘

1968  میں ان کی ریلیز ہونے والی آٹھ پنجابی فلموں میں کامیاب ترین ’جماں جنج نال‘ تھی۔ یہ ممکن ہی نہیں کوئی شخص موسیقی کا پرستار ہو اور اس نے ’کہندے نے نیناں، تیرے کول رہنا‘ نہ سنا ہو۔ اس فلم کے انٹرلیوڈ میں کسی آبشار کی روانی اور مدھرتا ہے۔ میڈیم نور جہاں نے اپنی لوچ دار آواز سے حزیں قادری اور وزیر افضل کی محنت کو چار چاند لگا دیے۔ اس فلم کا ایک اور قابل ذکر گیت مہدی حسن کی آواز میں ہے ’گھنڈ مکھڑے توں لاؤ یار۔‘

جا، اج توں میں تیری، تو میرا سجناں وے!

70 کی دہائی وزیر افضل کے لیے کچھ زیادہ کامیاب نہیں رہی لیکن انہوں نے کچھ ایسے گیت کمپوز کر دئیے کہ اگر ان کے علاوہ کچھ بھی نہ بناتے تب بھی امر ہو جاتے۔ ان میں سرفہرت ہے ’جا، اج توں میں تیری، تو میرا سجناں وے۔‘ ’یار مستانے‘ (1974) کے اس گیت کو حزیں قادری نے الفاظ کا روپ دیا۔

اس گیت میں جس طرح انترا واپس استھائی سے ملتا ہے اس کی دوسری مثال ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔ فلموں کے لیے بے شمار گیت راگ ایمن میں رچے گئے لیکن اس گیت میں جو انفرادیت اور تیور ہے وہ مشکل ہے کسی اور جگہ ملے۔ میڈیم نور جہاں نے اس گیت کی دھن میں چھلکتی سپردگی کو جس طرح اپنی آواز کے ذریعے گرفت میں لیا وہ اسے مزید دیومالائی حسن عطا کرتا ہے۔ میڈم کے بغیر اس گیت کا تصور ہی محال ہے۔

 ملکہ ترنم نور جہاں نے انڈیا کے دورے پر بہت مختصر سی پرفارمنس پیش کی جس میں ’جا، اج توں میں تیری، تو میرا سجناں وے‘ بھی شامل تھا۔ میڈیم نے جس طرح لہک لہک کر یہ گیت گایا پوری محفل بھی ساتھ جھوم اٹھی۔ سٹیج پر موجود موسیقار نوشاد نے میڈم سے پوچھا کہ ’یہ کس کی کمپوزیشن ہے۔‘ میڈم نے وزیر افضل کا نام بتایا تو انہوں نے ایک تعریفی خط وزیر افضل کے نام لکھا۔

شاعر، فکشن نگار اور موسیقی پر گہری نگاہ رکھنے والے محقق انعام ندیم بتاتے ہیں کہ انہوں نے اردو رسم الخط میں نوشاد کا لکھا ہوا یہ خط دیکھا جیسے وزیر افضل نے فریم کروا کے اپنا گھر رکھا ہوا تھا۔  ان کے بقول خط میں نوشاد صاحب کا یہ جملہ موجود تھا کہ ’اس گیت میں جہاں سے انترا گیا ہے، یہ ممکن ہی نہیں تھا‘ لیکن وزیر افضل نے یہ کمال کردیا ہے۔

فلموں سے ہٹ کر وزیر افضل نے ٹی وی اور ریڈیو کے لیے بھی انتہائی خوبصورت گیت کمپوز کیے جن میں میرا لونگ گواچا (مسرت نذیر)، چھاپ تلک سب چھین لی (ناہید اختر)، رنگوا دے چنریا (ناہید اختر)، رُکھ ڈولدے تے اکھ نئیں لگدی، نمی نمی وا وگدی (افشاں) اور سات سروں کا بہتا دریا (پرویز مہدی) شامل ہیں۔

’رُکھ ڈولدے تے اکھ نئیں لگدی، نمی نمی وا وگدی‘ کے انتہائی خوبصورت بول احمد راہی نے لکھے تھے۔ پنجاب کا لوک کلچر اس گیت کے ایک ایک مصرعے سے چھلکتا ہے۔ بعد میں اسی گیت کی دھن حدیقہ کیانی اڑا لے گئیں۔ مزید ظلم یہ کہ احمد راہی کے بول ہٹا کر نہایت واہیات قسم کا بے سر و پا گیت تیار کر کے پی ٹی وی پر چھوڑ دیا گیا۔ پی ٹی وی عرصہ دراز تک ’بوہے باریاں تے نالے کندھاں ٹپ کے‘ جیسے نقل شدہ بھونڈے گیت کے ذریعے گھٹیا ذوق کی ترویج کرتا رہا۔

مذکورہ بالا غیر فلمی گیت ہوں ’یا جا، اج توں میں تیری، تو میرا سجناں وے‘، ’سیونی میرے دل دا جانی‘، ’کہندے نے نیناں‘، ’کاہنوں کیتا پیار تیرے نال‘، ’جا جا وے تینوں دل دتا، دے دتا‘، ’اللہ واسطے‘، ’شکوہ نہ کر گلہ نہ کر‘ جیسے فلم کے گیت وزیر افضل کا نام زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن