بنگلہ دیش: آسکر ایوارڈ یافتہ ہدایت کار کا آبائی گھر مسمار کیا جانے لگا

انڈیا نے عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ستیہ جیت رائے کے آباؤ اجداد کے صدی پرانے گھر کی منہدمی پر ’گہرے افسوس‘ کا اظہار کرتے ہوئے ڈھاکہ سے اس کی دوبارہ تعمیر پر غور کی درخواست کی ہے۔

دو فروری، 1989 کو کولکتہ میں لی گئی انڈین فلم ساز ستیہ جیت رائے کی ایک تقریب میں لی گئی تصویر۔ اس تقریب میں فرانسیسی صدر فرانسوا میتران نے انہیں ’لیجن آف آنر‘ کا رکن بنانے کا اعلان کیا تھا (اے ایف پی)

بنگلہ دیش نے دارالحکومت ڈھاکہ کے شمال میں عالمی شہرت یافتہ فلم ساز ستیہ جیت رائے کے آباؤ جداد کے صدی پرانے گھر کو منہدم کرنا شروع کر دیا ہے۔

یہ گھر ایک زمانے میں میمن سنگھ ششو اکیڈمی کے طور پر استعمال ہوتا تھا، جو بچوں کی تربیت کے لیے حکومت کے زیر انتظام ایک مرکز تھا۔ 

بنگلہ دیشی اخبار ’دی ڈیلی سٹار‘ کی رپورٹ کے مطابق اب اسے ایک نئی نیم کنکریٹ کی عمارت سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔

حکام نے اس کی وجہ ساختی حفاظت کے متعلق خدشات بتائے ہیں، جو ایک دہائی تک نظر انداز کیے جانے کے بعد سامنے آئے ہیں۔

رائے کے دادا اپیندراکیشور رائے چوہدری نے ڈھاکہ کے شمال میں تقریباً 120 کلومیٹر دور یہ محل 36 ایکڑ کے وسیع علاقے پر تعمیر کیا تھا۔ 

یہ گھر ثقافتی شخصیات کی کئی نسلوں سے جڑا ہوا ہے: اپیندراکیشور خود بنگال رینیسنس کے ایک پیش رو مصنف، پبلشر اور ٹیکنالوجسٹ تھے، جو بچوں کے میگزین ’سندیش‘ کے بانی تھے اور انڈیا میں ہاف ٹون پرنٹنگ کی جدید تکنیکیں متعارف کرانے کے لیے مشہور تھے۔

ان کے بیٹے سکھومار رائے ایک پسندیدہ شاعر اور مزاح نگار تھے، جن کی غیر معقول شاعری بنگالی ادب میں گہرا اثر رکھتی ہے اور ان کے پوتے ستیہ جیت رائے عالمی سینیما میں ایک مشہور فلم ساز بنے۔

انڈیا کی وزارت خارجہ نے منگل کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس منہدمی پر ’گہرے افسوس‘ کا اظہار کیا اور ڈھاکہ سے اس کی دوبارہ تعمیر پر غور کرنے کی درخواست کی، ساتھ ہی عمارت کی بحالی کے لیے تکنیکی اور مالی تعاون کی پیشکش کی۔

بیان میں کہا گیا ’چونکہ یہ عمارت بنگالی ثقافتی احیا کی علامت ہے، اس لیے منہدمی پر نظرثانی کرنا اور اس کی مرمت اور دوبارہ تعمیر کے انتخاب پر غور کرنا بہتر ہو گا، تاکہ اسے ادب کا میوزیم اور انڈیا و بنگلہ دیش کی مشترکہ ثقافت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔‘

ستیہ جیت رائے 1921 میں کولکتہ میں پیدا ہوئے اور 1955 میں اپنی فلم ’پدر پنچالی‘ سے ہدایت کاری کا آغاز کیا، جس نے عالمی سطح پر شہرت حاصل کی اور ان کی اہم ’اپو ٹرائیلوجی‘ کی پہلی فلم بنی، اس نے انہیں متعدد ایوارڈز دلوائے، جن میں دو کین پام ڈی اور اور 1992 میں ایک اعزازی اکیڈمی ایوارڈ شامل ہیں۔

رائے کے بیٹے سندیپ رائے نے کہا کہ فلم ساز نے اپنے آباواجداد کے گھر کی تصاویر ایک دستاویزی فلم میں شامل کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن انہوں نے اس کی بوسیدہ حالت دیکھ کر اس خیال کو ترک کر دیا۔

سندیپ رائے نے این ڈی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ’میں کبھی بنگلہ دیش اس عمارت کو دیکھنے نہیں گیا، نہ ہی بابا [ستیہ جیت رائے] گئے تھے۔ جو کچھ میں نے دیکھا وہ عمارت کی تصاویر تھیں۔ 

’لیکن مجھے یاد ہے بابا اس عمارت کی تصاویر استعمال کرنا چاہتے تھے جب وہ سکھومار رائے کی دستاویزی فلم پر کام کر رہے تھے۔‘

ڈھاکہ میں حکام نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عمارت بچوں کے لیے خطرہ بن چکی تھی اور نئی عمارت سے اکیڈمی کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کی جا سکیں گی۔

ضلع میمن سنگھ کے بچوں کے امور کے افسر ایم ڈی مہدی زمان نے دی ڈیلی اسٹار کو بتایا ’گھر کو 10 سال سے چھوڑ دیا گیا تھا، اور ششو اکیڈمی کی سرگرمیاں کرائے کی جگہ سے چل رہی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا ضلعی انتظامیہ اور عوامی کاموں کے محکمے نے باضابطہ طریقہ کار پر عمل کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بنگلہ دیش کی سرحد سے ملتی انڈین ریاست مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی نے ایکس پر بنگالی میں لکھا یہ خبر ’انتہائی پریشان کن‘ ہے اور رائے خاندان کو ’بنگالی ثقافت کے سب سے اہم علم برداروں میں سے ایک‘ قرار دیا۔

انہوں نے لکھا ’میں بنگلہ دیش کی حکومت اور اس ملک کے تمام باشعور افراد سے اپیل کرتی ہوں کہ اس ورثے والے گھر کو محفوظ کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ انڈین حکومت کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔‘

بنگلہ دیش میں کچھ آثار قدیمہ کے ماہرین اور ثقافتی کارکنوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ عمارت کی تاریخی اہمیت کے باوجود اسے کبھی باقاعدہ طور پر محفوظ شدہ قرار نہیں دیا گیا۔

 شاعر شمیم اشرف نے دی ڈیلی سٹار کو بتایا کہ اس جگہ کو محفوظ کرنے کی اپیلیں نظر انداز کی گئیں اور ’گھر برسوں سے بدحال حالت میں تھا، اس کی چھت پر دراڑیں آ گئیں تھیں۔‘

شعبہ آثار قدیمہ کی فیلڈ افسر سبینا یاسمین نے بھی اخبار کو بتایا کہ بار بار کی وارننگز کو نظر انداز کیا گیا۔

اس بڑھتی ہوئی تشویش میں ایک اور ثقافتی ورثہ – نوبیل انعام یافتہ رابندرناتھ ٹیگور کے آباواجداد کا گھر کاچھراباری، سرگنج میں، جون کے اوائل میں ایک جھگڑے کے بعد حملے کا شکار ہو گیا تھا۔ 

واقعے میں آڈیٹوریم کو نقصان جبکہ ڈائریکٹر پر حملہ کیا گیا تھا، جس کے بعد 19ویں صدی کی اس عمارت کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا اور ایک سرکاری تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔

جب رائے خاندان کے گھر کی مسماری کی ویڈیو آن لائن گردش کرنے لگی تو کچھ لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا اور دونوں واقعات کے درمیان تعلق پیدا کیا۔

معاشی ماہر سنجیو سانیال نے ایکس پر لکھا ’جب ٹیگور کے گھر کو نقصان پہنچایا گیا تو وہ خاموش تھے۔ وہ خاموش ہیں جب ستیہ جیت رائے کے آباؤ اجداد کے گھر کو منہدم کیا گیا۔ دراصل وہ بنگالی ہندو شناخت کو منظم طور پر مٹانے میں شریک ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی فن