تلہ گنگ میں کرن جوہر کی ’آبائی حویلی‘ کس حال میں ہے؟

جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کرن جوہر کے والد اور نامور ہدایت کار یش جوہر، آئی ایس جوہر کے چھوٹے بھائی تھے تو پھر ان کے ذکر کے ساتھ تلہ گنگ کا نام کیوں نہیں آتا؟

22 مئی، 2004 کی اس تصویر میں بالی وڈ ہدایت کار کرن جوہر، ان کے والد اور فلموں کے لکھاری یش جوہر، اداکارہ جیا بچن کو سینیما ایوارڈز کی تقریب کے دوران دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

کیا آپ جانتے ہیں کہ بھارتی فلم انڈسٹری کے ماضی کے نامور سٹار اندرسین جوہر جنہیں دنیا آئی ایس جوہر کے نام سے جانتی ہے کا تعلق اسلام آباد سے 136 کلو میٹر دور اور حال ہی میں ضلع بننے والے شہر تلہ گنگ سے تھا۔

آئی ایس جوہر وہ پہلے ہندوستانی فلم سٹار تھے جنہیں برٹش اکیڈمی فلم ایوارڈز کے لیے نامزد کیا گیا۔ جنہیں ہندوستان کا چارلی چپلن کہا گیا اور جنہوں نے مشہور فلم لارنس آف عریبیا میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔

انہوں نے اداکاری، ہدایت کاری اور فلم رائٹر کے طور پر تینوں شعبوں میں اپنی دھاک بٹھائی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بالی وڈ کے موجودہ ہدایت کار کرن جوہر بھی ان کے رشتے دار ہیں۔

آئی ایس جوہر کون تھے؟

وہ 16 فروری 1920 کو تلہ گنگ میں پیدا ہوئے۔ یہ 103 سال پہلے کا تلہ گنگ ہے جو اس وقت ضلع اٹک کی تحصیل پنڈی گھیب کا ایک قصبہ ہوتا تھا۔

جب 1985 میں چکوال کو ضلع کا درجہ دیا گیا تو تلہ گنگ کو چکوال کی تحصیل بنا دیا گیا۔ پرویز الہیٰ نے اپنے گذشتہ دور ِحکومت میں تلہ گنگ کو ضلع کا درجہ دے دیا۔

آئی ایس جوہر نے علاقے کے ایک نامی گرامی ہندو خاندان میں آنکھ کھولی اور پرائمری تک تعلیم تلہ گنگ سے حاصل کرنے کے بعد انہوں نے سرگودھا جو اس وقت شاہ پور کہلاتا تھا کے سناتن دھرم ہائی سکول سے میٹرک کیا۔

بعد میں ایف سی کالج لاہور سے معاشیات اور سیاسیات میں ماسٹر کیا۔ ساتھ ہی ایل ایل بی بھی کر لیا۔

آئی ایس جوہر نے 1943 میں ایک فن کارہ راما بائینز سے شادی کر لی جس سے ان کا ایک بیٹا انیل جوہر اور بیٹی امبیکا جوہر پیدا ہوئیں جو بعد ازاں انڈین فلم انڈسٹری سے ہی منسلک ہوئے۔

 تقسیم کے وقت ان کا خاندان اپنے رشتہ داروں کے ہاں ایک شادی کی تقریب میں شرکت کے لیے پٹیالہ گیا ہوا تھا کہ اس دوران فسادات پھوٹ پڑے یوں یہ خاندان واپس نہ آسکا۔

 آئی ایس جوہر کی بطور ہیرو پہلی فلم ’ایک تھی لڑکی‘ 1949 میں ریلیز ہوئی اس کے بعد اگلے 30 سال تک انہوں نے واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔

1970 کی دہائی میں ان کی دو فلمیں ’جوہنے میرا نام‘ او ’شاگرد‘ بہت مقبول ہوئیں۔

ایک وقت تھا کہ ان کا نام ہی کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا تھا اس دور میں ان کےنام سے کئی فلمیں بنائی گئیں جن میں ’میرا نام جوہر‘ ، ’جوہر ان کشمیر‘ اور ’جوہر ان بمبئی‘ وغیرہ شامل تھیں۔

ان کی ایک فلم ’نس بندی‘ اندرا گاندھی کے دور میں بین کر دی گئی انہوں نے بھٹو کی زندگی پرایک ڈرامہ بھی لکھا۔

1957 میں انہیں انڈین فلم فیسٹول لندن میں مدعو کیا گیا جہاں برطانوی فلم سٹارز کے علاوہ ہالی ووڈ کے سٹارز بھی جلوہ گر تھے وہاں ان کا تعارف کراتے ہوئے انہیں ہندوستان کا چارلی چپلن کہا گیا۔

لیکن جب بعد میں وہ ڈائس پر آئے تو انہوں نے کہا ’یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ مجھے ہندوستان کا چارلی چپلن کہا گیا ہے دراصل اس سے پہلے بھی یہ کہہ کر کئی بار میری توہین کی جا چکی ہے۔

’میری زندگی بدقسمتی سے عبارت ہے اور یہ ذمہ داری بھی مجھ سے جڑے لوگوں پر ہی عائد ہوتی ہے کہ کبھی وہ میرے لیے خوش قسمت ثابت ہوئے اور کبھی بدقسمت۔ اس کا آغاز میری پیدائش سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ میرا ایک جڑواں بھائی میرا بالکل ہم شکل تھا لوگ بھی اکثر دھوکہ کھا جاتے تھے۔ میں بہت محنتی تھا اور وہ نکما، یونیورسٹی میں امتحان میں نے دیا اور یونیورسٹی نے ڈگری اسے دے دی۔

’اس نے کوئی جرم کیا پولیس مجھے پکڑ کر لے گئی۔ میں نے جس لڑکی سے محبت کی اس نے شادی میرے بھائی سے کر لی۔ لیکن پچھلے سال سارے حساب میں نے برابر کر دیے۔ میں مر گیا لیکن لوگوں نے اسے دفنا دیا۔‘

آئی ایس جوہر کی اس ظریفانہ گفتگو سے ہال کشت زعفران بن گیا اور تالیوں سے گونجتا اٹھا۔ آئی ایس جوہر نے ہندی، انگلش اور پنجابی فلموں میں کام کیا۔ 10 مارچ 1984 کو ان کا انتقال ہوا۔ انہوں نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

بالی وڈ کے موجودہ معروف ہدایت کار کرن جوہر کے بار ے میں بھی جب کوئی سکینڈل سامنے آتا ہے تو اس کے لیے میڈیا پر حوالہ دیا جاتا ہے کہ ان کے انکل آئی ایس جوہر بھی اسی طرح رنگین مزاج تھے۔

جو ان کے والد یش جوہر کے بڑے بھائی تھے جن کا انتقال 2004 میں ہوا جن کی کمپنی دھرما پروڈکشن نے ’کچھ کچھ ہوتا ہے‘، ’کبھی خوشی کبھی غم‘، ’کبھی الوداع نہ کہنا‘، ’کل ہو نہ ہو‘ اور ’مائی نیم از خان‘ جیسی مشہور فلمیں بھی بنائیں ۔

تلہ گنگ میں آئی ایس جوہر کا گھر کہاں تھا؟

تلہ گنگ کے معروف بیوروکریٹ اور لکھاری تنویر ملک کی حال ہی میں ایک کتاب آئی ہے جس کا نام ’شہر ِآشوب تلہ گنگ‘ ہے جسے سنگی پبلشنگ ہری پور نے شائع کیا ہے۔

اس میں ایک مضمون ’جوہراں آلی ماڑی‘ بھی ہے۔ مقامی زبان میں ماڑی حویلی کو کہتے ہیں۔

اس مضمون میں تنویر ملک لکھتے ہیں کہ 1947 میں اندرسین جوہر اور یش جوہر کا خاندان ہندوستان چلا گیا مگر ان کی رہائش گاہ آج بھی تلہ گنگ میں جوہراں آلی ماڑی کے نام سے جانی جاتی ہے۔

جب شہر میں مسلمانوں کے محلے کے محلے کچے گھروں پر مشتمل تھے اس وقت شہرکی مرکزی گزرگاہ یعنی چکوال میانوالی روڈ پر واقع یہ تین منزلہ پختہ خوبصورت ماڑی شہر کے ماتھے کا جھومر تھی۔ اس ماڑی کی عقبی دیواریں مغربی سمت گلی سیٹھیاں کی طرف تھیں۔

اس کا ایک چھوٹا سا دروازہ چکوال روڈ پر ڈاک خانے کے عین سامنے کھلتا تھا جو طویل عرصہ ایک لیڈی ڈاکٹر کے کلینک کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔

اس کا مرکزی دروازہ مشرق کی سمت اس گلی میں کھلتا تھا جو شیخاں آلی گلی کے نام سے موسوم تھا۔

جوہراں آلی ماڑی ہندو طرزِ تعمیر کی نمائندہ کہی جا سکتی تھی۔ جس کے ارد گرد کے گھر بھی ہندوؤں کے تھے۔

منقش لکڑی کا ایک بڑا دروازہ، اندر داخل ہوتے ہی ایک تنگ صحن، جس کی چاروں سمت دو منزلہ یا تین منزلہ رہائشی چھوٹے کمرے۔

ایک طرف زمینی منزل پر صاف ستھری رسوئی، عبادت کا کمرہ، صحن میں عموماً ایک کنواں جو اوپر سے خوب ڈھکا ہوتا۔ چھوٹی سی کیاری جس میں تلسی کے چند پودے۔ یہ پودا ہندو مت میں خوش بختی کی علامت کے طور پر لگایا جاتا ہے۔

صحن کے ارد گرد تنگ سیڑھیاں، کثیر تعداد میں بالکونیاں، مردو زن کے بیٹھنے کے لیے بالائی منزل پر مزین جھروکے، بیرون رخ آہنی سلاخوں والی چوڑی چوبی کھڑکیاں اور روشن دان، اندرونی صحن میں کھلتے چوبی چھجے۔

ریلنگز سے استوار فصیلیں اور خوبصورت برج مینار، بیرونی دیواروں پر زردی مائل راجستھانی سینڈسٹون سے پچ کاری، بیل بوٹے اور جانوروں کے چھوٹے چھوٹے مجسمے، فرنٹ کی دیوار پر چھوٹی زیبائشی اینٹوں کی چنائی، کمروں کی مصور دیواریں اور کندہ مذہبی تصاویر۔

جوہراں آلی ماڑی نے بھی 1947 کے بعد عجیب اتار چڑھاؤ دیکھے۔

پہلے ایک بزرگ ڈاکٹر انور صاحبہ کو الاٹ ہوئی۔ ان کا ایک چھوٹا سا کلینک برسوں یہاں چلتا رہا۔ 1970 میں یہاں پیپلز پارٹی کا دفتر قائم ہوا۔

بعد ازاں یہ ماڑی بھٹی خاندان کو فروخت کر دی گئی جنہیں یہ ماڑی راس نہیں آئی اور ان کے دو جواں سال فرد خاندانی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے۔

جس کے بعد کہا جانے لگا کہ یہ ماڑی آسیب زدہ ہے۔ آج کل اس کے بڑے حصے کو گرا کر یہاں ایک ہوٹل تعمیر کر دیا گیا ہے۔

آئی ایس جوہر کا کرن جوہر سے کیا تعلق ہے ؟

بالی وڈ میں بہت سے خاندان ایک دوسرے سے رشتہ داریوں میں جڑے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کرن جوہر کے والد اور نامور ہدایت کار یش جوہر، آئی ایس جوہر کے چھوٹے بھائی تھے تو پھر ان کے ذکر کے ساتھ تلہ گنگ کا نام کیوں نہیں آتا بلکہ ان کی پیدائش تو 1929 میں امرتسر میں ہوئی۔

ان کے بیٹے اور نامور ہدایت کار کرن جوہر جنہیں فلم انڈسٹری میں نمایاں خدمات پر بھارت کا اعلی ٰ ترین سول ایوارڈ پدما شری بھی 2020 میں دیا جا چکا ہے اور جنہوں نے انڈین باکس آفس کو کئی ہٹ فلمیں دی ہیں، ان کے پروفائل میں بھی کہیں یہ ذکر تک موجود نہیں ہے کہ وہ نامور بھارتی اداکار آئی ایس جوہر کے بھتیجے ہیں۔

ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ جب کبھی ان کے ساتھ کوئی سکینڈل جڑ جاتا ہے تو بعض ویب سائٹس یہ دعویٰ کرتی نظر آتی ہیں کہ وہ اپنے چچا آئی ایس جوہر پر گئے ہیں جن کے کئی سکینڈل اور پانچ شادیاں تھیں۔

ہو سکتا ہے کہ آئی ایس جوہر کرن جوہر کے حقیقی چچا نہ ہوں بلکہ رشتے کے چچا ہوں۔ کیونکہ اس زمانے میں ہندوستان میں اندرونی ہجرت بہت زیادہ تھی لوگ بہتر مواقع کی تلاش میں چھوٹے سے بڑے شہروں کی طرف ہجرت کر جاتے تھے۔

 ممکن ہے یش جوہر کا خاندان تقسیم سے کہیں بہت پہلے ہی تلہ گنگ سے امرتسر منتقل ہو گیا ہو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ