بچوں کی ویڈیوز یا بچپن کا سودا؟

جب زندگی کی ہر ادا، ہر لمحہ کیمرے کی آنکھ میں قید ہونے لگے تو وہ یادگار دن و رات  جو کھیلنے، سیکھنے اور محبت بھرے رشتوں کا احساس کرنے کے ہیں، بس ’ڈیجیٹل کانٹینٹ‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔

بین الاقوامی یوٹیوبرز جیسے ’ریانز ورلڈ‘ نے بچوں کی یوٹیوب مارکیٹ میں ایسا ہنگامہ مچایا کہ مختلف اداروں نے کھلونوں کے اشتہار سے لے کر ملبوسات تک کی تشہیر کے لیے ان سے لاکھوں ڈالرز کے معاہدے کر رکھے ہیں (ریانز ورلڈ انسٹاگرام اکاؤنٹ)

’ہمارے بیٹے کا چینل ہے، سسبکرائب کر دیجیے گا۔‘

یہ پیغام کبھی نہ کبھی آپ کو بھی ملا ہوگا، جس کے ساتھ یو ٹیوب چینل کا لنک بھی درج ہوتا ہے۔

ٹیکنالوجی کا دور ہے اور جین زی بلکہ اب تو ایلفا کے بچے ان دنوں کسی نہ کسی شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا امتحان لے رہے ہیں۔ دورِ حاضر کے ایسے بھی’سیانے‘ کم سن بچے ہیں، جنہوں نے ٹھیک سے اپنے پیروں پر چلنا بھی سیکھا نہ ہوگا لیکن ان کی موبائل فون کو چلانے کی مہارت سب کو دنگ کر جاتی ہے۔

اب جب سیاست دان، اداکار، گلوکار، کھلاڑی اور صحافی یوٹیوب پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں، اپنے بیانیے کو پیش کرکے ڈالرز بھی جمع کر رہے ہیں تو اس موقعے سے بھلا بچے کیوں فائدہ نہ اٹھائیں، بلکہ یہ کہیں کہ وہ کیوں کسی سے پیچھے رہیں۔

کسی کو ذرا سا بولنا آیا تو جھٹ پٹ کیمرے کے سامنے پیش ہونے کا اعتماد بھی پالیا۔ والدین فوراً وی لاگ بنا کر اس کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اگر والدین تساہل پسند ہوئے تو ننھے میاں از خود ٹیکنالوجی کی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے یو ٹیوب کا در کھول لیتے ہیں۔

پاکستان میں بچوں کے یو ٹیوب چینلز بنانے کا یہ رحجان دراصل بین الاقوامی یوٹیوبرز سے درآمد کیا گیا ہے۔ یہ بین الاقوامی چائلڈ یو ٹیوبرز اپنی اوٹ پٹانگ اور کبھی دلچسپ حرکتوں سے سب کو لطف اندوز کرتے رہے ہیں۔ ان میں سے کئی تو ایسے ہیں، جن کے والدین نے اکلوتے بیٹے سے یہ سفر شروع کیا اور پھر جیسے جیسے اولاد میں اضافہ ہوتا گیا، تو یو ٹیوب پر ان کی ایسی رونمائی ہوئی کہ ویوز اور سبسکرائبرز بھی بڑھتے چلے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان میں والدین ننھے منے بچوں کے ہاتھوں میں سیل فون تھما کر گھریلو کام کاج میں مصروف رہتے ہیں۔ ان بچوں کے لیے بین الاقوامی چائلڈ یوٹیوبرز کی حرکتیں لوٹ پوٹ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریان ہوں، ڈیانا ہوں، ولاد، نکی یا پھر ڈیو اینڈ آیا، ان سب کے پرستار بچے ہی نہیں، پاکستانی والدین بھی ہیں۔

بین الاقوامی یوٹیوبرز جیسے ’ریانز ورلڈ‘ نے بچوں کی یوٹیوب مارکیٹ میں ایسا ہنگامہ مچایا کہ مختلف اداروں نے کھلونوں کے اشتہار سے لے کر ملبوسات تک کی تشہیر کے لیے ان سے لاکھوں ڈالرز کے معاہدے بھی کیے۔

کچھ ایسا ہی حال دوسرے مشہور چائلڈ یوٹیوبرز کا بھی ہے۔ پاکستانی مارننگ شوز کی طرح ان کی بھی ایک ایک چیز سپانسرڈ ہو چکی ہے۔ دیکھا جائے تو بچوں کے یہ بین الاقوامی یوٹیوب چینلز کاروباری سلطنت کا روپ دھار چکے ہیں۔ پاکستانی والدین یا بچوں کو بھی یہ چکا چوند اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہی، تبھی انہوں نے بھی اس شعبے میں طبع آزمائی کی۔

حالیہ برسوں میں پاکستان میں بیشتر کم عمر یوٹیوبرز نے محض ایک جملے، ایک ادا یا کسی شوخ ویڈیو کلپ کے ذریعے شہرت کی وہ سیڑھیاں چڑھیں کہ نامی گرامی مقبول وی لاگرز انہیں دیکھ کر  حسد کرنے لگے۔

ان کی ویڈیوز نہ صرف وائرل ہوئیں بلکہ لاکھوں ویوز، ہزاروں سبسکرائبرز اور دل کھول کر آنے والے ڈالرز نے بچوں اور ان کے والدین کی زندگی بدل کر رکھ دیں۔ کچھ تو ایسے خوش قسمت ہیں کہ اعلیٰ سرکاری شخصیات کے مہمان بھی بنے۔

کسی نے ’پیچھے تو دیکھو‘ کا نعرہ لگا کر بہن بھائیوں تک کو اس شعبے میں داخل کر دیا۔ کہیں کسی کے پاپا بچوں سے زیادہ سپر سٹار بن گئے۔ کہیں کوئی اچھا خاصا سمجھ دار بچہ ویوز کے تعاقب میں کامیڈین بنا ہوا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کسی کے باہر نکلے ہوئے دانتوں کا مذاق اڑا کر ویوز حاصل کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں بچوں کے یوٹیوب چینلز پر ابتدا میں مواد معلوماتی ہی رہا۔ ان میں تعلیمی ویڈیوز، کہانیاں اور گیمنگ مواد نمایاں رہا، لیکن بدقسمتی سے ان چینلز کے ویوز انتہائی محدود رہے تو بیشتر بہت ہی جلدی ہمت ہار بیٹھے۔

کچھ نے بین الاقوامی چائلڈ یو ٹیوبرز کی بھونڈی نقل کرتے ہوئے ہو بہو وہی مواد پیش کرنا شروع کر دیا۔  اسی طرح کچھ بچوں نے بڑوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’فیملی وی لاگنگ‘ کا آغاز کیا، جہاں ایک عام دن کی مصروفیت جیسے بازار یا منڈی جانا، ناشتہ تیار کرنا  یا بچوں کے سکول جانے کی تیاری یا پھر خریداری ان کے یوٹیوب مواد کا خاصہ رہیں۔

ظاہر ہے کچھ کو ویوز ملے تو کچھ اس سے محروم بھی رہے۔ شکوہ یہی کیا جاتا ہے کہ بچوں کے یوٹیوب چینلز تک پر صرف چیخ و پکار، بھونڈی حرکات یا سطحی کامیڈی نظر آتی ہے، جس میں نہ مواد ہے، نہ کوئی پیغام۔ ان میں سے کئی ایسے ہیں، جہاں آپ کو تعلیمی میدان میں ان کی کسی کامیابی کا تذکرہ نہیں ملے گا اور نہ ہی ان کے پرستاروں کو مستقبل کے بارے میں کوئی رہنمائی دی جاتی ہے۔

درحقیقت ملک میں ’یوٹیوب رحجان‘ ایک مکمل ڈیجیٹل ثقافت بن چکی ہے، جہاں بڑے بچے سبھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان میں بیشتر کے لیے یو ٹیوب کمائی کا ذریعہ بھی ہے۔

یہ درست ہے کہ بچوں کے اندر کیمرے کے سامنے مکالمہ یا اداکاری کا مظاہرہ کرنے سے غیر معمولی اعتماد آرہا ہے، لیکن کچھ چبھتے ہوئے سوال ضرور جنم لے رہے ہیں۔

مشہور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر شفیق یاسین کہتے ہیں کہ یوٹیوب پر بچوں کے چینلز کی بہتات، دیگر کو اس بات پر اکسا رہی ہے کہ وہ نصابی سرگرمیوں کے بجائے ’یو ٹیوبی سرگرمیوں‘کے ذریعے اپنے نام کو روشن کریں۔ یعنی  بچوں کے ذہن میں یہ خیال کلبلاتا رہتا ہے کہ ’شارٹ کٹ‘ کے ذریعے شہرت اور دولت کا حصول آسان ہے۔

اسی طرح جب بچوں کی روزمرہ زندگی مکمل طور پر وی لاگز کا حصہ بننے لگیں تو ان کی زندگی اور رشتے ہر ایک پر عیاں ہونے لگتے ہیں۔ کم عمری میں ہی ویوز اور سبسکرائبرز حاصل کرنے کی جدوجہد کی بنا پر بچے مختلف نفسیاتی دباؤ کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ بچے علم سے دور اور سوشل میڈیا کی دنیا کے زیادہ قریب ہوتے چلے جاتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ یوٹیوب نے بچوں کو خود اعتمادی، اظہارِ خیال اور تکنیکی صلاحیتوں کا ایک نیا میدان دیا ہے، لیکن یہی روش اگر حد سے بڑھ جائے تو بچپن کی معصومیت اور ذہنی سکون کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے۔ جب زندگی کی ہر ادا، ہر لمحہ کیمرے کی آنکھ میں قید ہونے لگے تو وہ یادگار دن و رات  جو کھیلنے، سیکھنے اور محبت بھرے رشتوں کا احساس کرنے کے ہیں، بس ’ڈیجیٹل کانٹینٹ‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔

شہرت اور مقبولیت کی یہ دوڑ اور سبسکرائبرز اور ویوز کا جنون، اگر متوازن نہ ہو تو ننھے منے ذہن منتشر ہوسکتے ہیں۔ والدین کے لیے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے وہ بچوں کے لیے موبائل کیمرے کے سامنے مسکراتی ہوئی ایک ’پرفارمنگ لائف‘ چاہتے ہیں یا ایک پُرسکون، بھرپور اور فطری بچپن؟ اہم نکتہ تو یہ بھی ہے کہ کہیں ہم بچوں سے ان کا بچپن چھین کر انہیں ایک ڈیجیٹل کامیابی کی دوڑ میں تو نہیں جھونک رہے؟

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ