میری بہن، جو ایک سپیشلسٹ کالج میں کام کرتی ہیں، حال ہی میں مجھے بتا رہی تھیں کہ موبائل فون سب سے بڑا مسئلہ ہے، جس سے وہ اور ان کے ساتھی نبرد آزما ہیں۔
طالب علم انہیں ہر وقت باہر نکال کر رکھتے ہیں اور چمکدار، سیاہ حفاظتی کورز میں انہیں اپنے ہاتھوں میں پکڑے رہتے ہیں۔
ان کی کلاس کے طلبہ اسباق کے دوران ایک دوسرے کو پیغام بھیجتے، سوشل میڈیا کو سکرول کرتے یا موسیقی سنتے ہیں، جبکہ وہ ان کی توجہ دوبارہ اپنی طرف کرنے اور انہیں حقیقی دنیا میں واپس لانے کی کی کوشش کر رہی ہیں۔
سکرین اور نوعمر بچے: یہ ایک ایسا امتزاج ہے جس کے ساتھ نمٹنا گذشتہ دہائی میں سب سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔
میرے خیال میں بٹنوں والے بغیر انٹرنیٹ کے ’اینالاگ‘ فونز سے سمارٹ فونز پر منتقلی اورکرونا وبا میں لاک ڈاؤن کے دوران ڈیجیٹل زندگی میں اضافے کی وجہ سے 46 فیصد نوعمر ’تقریباً مسلسل‘ آن لائن رہے۔
آف کام کے اعداد و شمار کے مطابق 12 سال کی عمر تک 97 فیصد بچوں کے پاس سمارٹ فون ہوتا ہے۔
فروری میں اس جاری جنگ میں نئی لکیریں کھینچی گئیں اور حکومتی وزرا نے انگلینڈ کے سکولوں میں موبائل فون پر پابندی عائد کرنے کے منصوبے کی تصدیق کی ہے جبکہ محکمہ تعلیم نے اساتذہ کو اس پر عمل درآمد میں مدد کرنے کے لیے رہنمائی جاری کی ہے۔
سیکریٹری تعلیم گیلین کیگن نے کہا کہ محکمہ تعلیم کا ماننا ہے کہ یہ ہدایات ہیڈ ٹیچرز کو اس ڈیجیٹل آسیب کو ختم کرنے کے لیے ’بااختیار‘ بنائیں گی اور ’مستقل مزاجی کے بارے میں ایک واضح پیغام بھیجیں گی۔‘
انہوں نے بی بی سی ریڈیو فور کے پروگرام ٹوڈے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ سکول لوگوں سے بات چیت کرنے، میل جول رکھنے کے لیے جاتے ہیں، آپ تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ آپ اپنا موبائل فون استعمال کرنے یا پیغامات بھیجنے کے لیے نہیں جاتے جبکہ آپ کسی سے براہ راست بھی بات کرسکتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سماجی ماہر نفسیات جوناتھن ہیڈٹ کی تحریر کردہ ایک نئی کتاب ’دی اینکشس جنریشن‘ کے مطابق اہم تشویش صرف یہ نہیں ہے کہ نو عمر اور نوجوان کلاس میں اچھی طرح سے توجہ نہیں دے رہے بلکہ اس کا بچوں اور نوجوانوں کی ذہنی صحت پر کہیں زیادہ خوفناک اثر پڑتا ہے۔
انہوں نے یہ زبردست دلیل پیش کی کہ آن لائن گزارے گئے وقت میں اضافے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں ایک خطرناک ذہنی صحت کا بحران بھی بڑھ رہا ہے۔
2010 اور 2015 کے درمیان، 10 سے 14 سال کی لڑکیوں اور لڑکوں میں خودکشی کی شرح میں بالترتیب 167 اور 92 فیصد اضافہ ہوا۔ برطانیہ میں نوعمر لڑکیوں میں خود کو نقصان پہنچانے کی شرح میں 78 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
وہ جن کی عمر 18 سے 25 سال ہے، ان میں اضطراب کی تشخیص میں 92 فیصد اضافہ ہوا۔
اسی پانچ سال کی مدت کے دوران، امریکی گھرانوں کی اکثریت تک سمارٹ فونز پہنچ گئے۔ انہیں انسانی تاریخ میں کسی بھی دوسری مواصلاتی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں تیزی سے اپنایا گیا تھا۔
ہیڈٹ کا کہنا ہے کہ سکرین ٹائم اور خراب ذہنی صحت کے درمیان بھی ایک واضح تعلق ہے: تقریباً 40 فیصد نوعمر لڑکیاں جو روزانہ پانچ گھنٹے سے زیادہ وقت سوشل میڈیا پر گزارتی ہیں ان میں کلینیکل ڈپریشن کی تشخیص ہوئی ہے۔
ہیڈٹ کا دعویٰ ہے کہ بچپن اور جوانی کو ’ری وائرڈ‘ یعنی تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے، جو صدی کے آغاز میں شروع ہوئی تھی، جب ٹیکنالوجی کمپنیوں نے انٹرنیٹ کی تیزی سے بڑھتی ہوئی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے دنیا کو تبدیل کرنے والی مصنوعات کا ایک سیٹ تیار کرنا شروع کیا تھا، ہیڈٹ نے ایک گہری تشویش ناک تصویر پیش کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کمپنیوں نے بچوں اور نوعمروں پر اپنی مصنوعات کے ذہنی صحت کے اثرات پر بہت کم یا کوئی تحقیق نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے صحت کے اثرات کا مطالعہ کرنے والے محققین کے ساتھ کوئی ڈیٹا شیئر کیا۔ جب اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کی مصنوعات نوجوانوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں، تو وہ زیادہ تر انکار، دھوکہ دہی اور تعلقات عامہ کی مہم چلانے لگے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ وہ کاروباری ماڈل جو نفسیاتی حربوں کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ موبائل کے استعمال پر انحصار کرتے تھے وہ ’بدترین مجرم‘ تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے ’نشوونما کے مراحل کے دوران بچوں کو جکڑ لیا، جبکہ ان کے دماغ آنے والی ترغیب کے ردعمل میں تیزی سے ری وائرنگ کر رہے تھے (یعنی تبدیل ہو رہے تھے)۔‘
لڑکیوں کو سب سے بڑا نقصان سوشل میڈیا کی وجہ سے ہوا جبکہ لڑکوں پر، ویڈیو گیمز اور فحش ویب سائٹس نے سب سے زیادہ خوفناک اثرات مرتب کیے۔
ہیڈٹ تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’بچوں کی آنکھوں اور کانوں سے داخل ہونے والے نشہ آور مواد کا ایک فائر ہاؤس ڈیزائن کرکے اور جسمانی کھیل اور ذاتی میل جول کو تبدیل کرکے، ان کمپنیوں نے بچپن کو تبدیل کیا ہے اور انسانی نشوونما کو تقریباً ناقابل تصور پیمانے پر تبدیل کردیا ہے۔‘
کمپنیوں پر الزام ہے کہ وہ تمباکو اور ویپنگ کی صنعتوں کی طرح برتاؤ کرتی ہیں، انتہائی نشہ آور مصنوعات ڈیزائن کرتی ہیں اور انہیں نابالغوں کو فروخت کرنے کے لیے قوانین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
اس سے صورت حال مزید تشویش ناک ہو جاتی ہے۔ نشونما کے لحاظ سے، بچوں کے دماغ مندرجہ بالا تمام چیزوں سے نمٹنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوتے ہیں۔ ان کے دماغ کے وہ حصے جو انعامات کی تلاش میں ہوتے ہیں، ان حصوں سے زیادہ تیزی سے نشوونما پاتے ہیں، جو خود پر قابو پانے اور قوت ارادی کو کنٹرول کرتے ہیں اور یہ اس وقت تک مکمل طور پر پختہ نہیں ہوتے جب تک کہ لوگ 20 سال کی عمر میں نہ ہوں۔ یہ امتزاج اس وقت اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے جب آپ جدید الگورتھم شامل کرتے ہیں جو بالغوں کو بھی گھنٹوں تک سکرینوں پر چپکا کر رکھ سکتے ہیں۔
ہیڈٹ بوسٹن کی ایک ماں کی کہانی بیان کرتے ہیں، جو ان بہت سے والدین کی نمائندہ ہیں، جن کے ساتھ انہوں نے کام کیا اور جنہوں نے بتایا کہ انہیں لگا کہ انہوں نے اپنی 14 سالہ بیٹی ایملی کو ’کھو دیا‘ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے اور ان کے شوہر نے ایملی کا انسٹاگرام استعمال کرنے کا وقت کم کرنے کی کوشش کی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ ’ایک پریشان کن واقعے میں، ایملی نے اپنی ماں کے فون میں سے مانیٹرنگ سافٹ ویئر کو غیر فعال کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر اس کے والدین نے اسے دوبارہ انسٹال کیا تو وہ اپنی جان لے لی گی۔‘
ایسا نہ ہو کہ آپ یہ سوچیں کہ نوجوانوں کی ذہنی صحت میں اچانک خرابی حالیہ واقعات کی وجہ سے ہے۔ مثال کے طور پر، سیاسی بحران، دائیں بازو اور عوامیت پسند تحریکوں کا عروج، بریگزٹ، ڈونلڈ ٹرمپ اور باقی سب۔ ہیڈٹ نے متعدد ممالک کا موازنہ کیا جو ثقافتی طور پر کافی مماثلت رکھتے تھے لیکن ایک ہی عرصے کے دوران مختلف اہم خبریں ہوتی تھیں، جن میں کینیڈا، برطانیہ اور نارڈک ممالک شامل ہیں۔ 2010 کی دہائی کے اوائل میں سب نے تقریباً ایک جیسی تبدیلی کا تجربہ کیا۔
ہیڈٹ کے مطابق: ’فون کے ساتھ گزرنے والے بچپن‘ کی وجہ سے چار بنیادی ’نقصانات‘ پیدا ہوتے ہیں۔ سماجی محرومی، نیند کی کمی، منقسم توجہ اور نشے کی لت۔
پہلا واضح ہے۔ ہیڈٹ کہتے ہیں کہ ’بچوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کھیلنے، آمنے سامنے، سماجی بہتری کو فروغ دینے کے لیے بہت وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحقیق کے مطابق جو نوجوان اپنے ساتھیوں کے ساتھ ذاتی طور پر زیادہ وقت گزارتے ہیں ان کی دماغی صحت بہتر ہوتی ہے جبکہ جو لوگ سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتے ہیں ان میں ڈپریشن اور اضطراب کے شکار ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
لیکن امریکہ میں 17 سے 18 سال کی عمر کے ان بچوں کی تعداد میں 2009 کے مقابلے میں ڈرامائی طور پر کمی واقع ہوئی ہے جو کہتے ہیں کہ وہ ’تقریباً ہر روز‘ اپنے دوستوں کے ساتھ گھومتے ہیں۔
آمنے سامنے کی بات چیت کی جگہ لوگوں سے آن لائن بات کرنے میں وقت گزارنے نے لے لی ہے اور اس تبدیلی کی وجہ سے نوعمروں کی ذہنی صحت تیزی سے خراب ہوئی ہے۔
دوسرا مسئلہ واضح نہیں ہے، لیکن نیند کے مسائل، جو 2010 کی دہائی کے اوائل میں مستحکم ہو گئے تھے، 2013 میں دوبارہ بڑھنے لگے اور اس اضافے کا تعلق فون کے ساتھ گزرے بچپن سے جوڑا گیا ہے۔
36 باہمی مطالعات کے جائزے کے مطابق سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال اور خراب نیند کے درمیان ’اہم تعلق‘ ہے۔
برطانیہ کے ایک ڈیٹا سیٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سکرین میڈیا کے زیادہ استعمال کا تعلق ’نیند کے کم دورانیے، نیند آنے میں طویل تاخیر اور نیند کے درمیان اکثر بیداری کے ساتھ تھا۔‘
نوجوانوں کو بالغوں کے مقابلے میں زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے، خاص طور پر بلوغت کے دوران۔ نیند سے محروم افراد کو ان لوگوں کے مقابلے میں معلومات پر توجہ مرکوز کرنے اور یاد رکھنے میں زیادہ دشواری پیش آتی جنہوں نے ہر رات پورے آٹھ گھنٹے کی نیند لی ہوتی ہے۔
بالغ افراد نمبر تین سے بہت واقف ہوں گے: منقسم توجہ۔ ڈبل ڈیجٹ ٹیبز اور سلیک سے آنے والے مسلسل نوٹیفکیشن دیکھنا اور متعدد وٹس ایپ گروپوں میں سرفہرست رہنا مکمل طور پر بالغ افراد کے لیے بھی مشکل ہو سکتا ہے۔
ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ایک اوسط نوجوان کو سوشل میڈیا اور مواصلاتی ایپس سے روزانہ 192 الرٹس یا نوٹیفیکیشنز ملتے ہیں، یعنی جاگتے ہوئے ہر گھنٹے میں 11، یا ہر پانچ منٹ میں ایک کے برابر۔
ہیڈٹ لکھتے ہیں: ’بالغوں کے لیے ایک کام یا مقصد پر توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہے، لیکن نوعمروں کے لیے یہ اور بھی مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوعمروں میں دماغ کا فرنٹل کورٹیکس ناپختہ ہوتا ہے، جو ان کی خلفشار یا خواہشات کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت کو محدود کر دیتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ رکاوٹوں کا یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ’نوجوانوں کی سوچنے کی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے اور ان کے نشوونما پاتے دماغوں پر بھی دیرپا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جن کی ساخت اور افعال مسلسل بدل رہے ہوتے ہیں۔‘
اور آخر میں نشہ۔ یہ رجحان ایپلی کیشن تخلیق کاروں سے شروع ہوتا ہے جو جان بوجھ کر اپنی مصنوعات کو غیر متوقع ’انعامات‘ دینے کے لیے ڈیزائن کرتے ہیں، جو ہمارے دماغوں میں ڈوپامائن کے اخراج کو متحرک کرتے ہیں، جو خوشگوار احساسات کا باعث بنتے ہیں۔
وہ ’صارفین کو انتہائی مشغول رکھنے کے لیے ماہرینِ نفسیات کی ٹول کٹ میں موجود ہر تکنیک کا اس طرح استعمال کرتے ہیں جس طرح سلاٹ مشینیں جواریوں کو پھنساتی اور مشغول رکھتی ہیں۔
بالغوں کی نسبت نوعمر ان ’تکنیکوں‘سے زیادہ آسانی سے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ ان کا فرنٹل کورٹیکس، جو فیصلہ سازی کو کنٹرول کرتا ہے، اس وقت تک مکمل طور پر تیار نہیں ہوتا جب تک کہ ان کی عمر 20 سال یا اس سے زیادہ نہ ہو۔
ان سب کاموں کے ساتھ، کیا یہ کوئی تعجب کی بات ہے کہ جنریشن زی اور اس کے بعد آنے والے بحران کا شکار ہیں؟ اور کیا اس انتہائی نقصان دہ پیٹرن کو توڑنے کا کوئی طریقہ ہے؟ ہیڈٹ کے مطابق ایسا ممکن ہے لیکن یہ سب اس وقت ممکن ہے جب بچوں کو سمارٹ فون اور سوشل میڈیا سائٹس تک رسائی کی عمر میں تاخیر کی جائے اور اس کے لیے مضبوط اور اجتماعی کارروائی درکار ہوگی، یعنی فون پر مبنی بچپن سے کھیل کود والے بچپن میں واپسی ہوگی۔
رضاکارانہ رابطہ کاری یہاں ایک کارآمد ٹول ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، سکول جانے والے بچوں کے والدین کا ایک گروپ اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرے کہ ان کے بچوں میں سے کسی کو بھی ایک خاص عمر تک فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس فیصلے کا مطلب ہے کہ بچے بھی تنہا محسوس نہیں کریں گے۔
اگر لوگوں کی ایک خاص تعداد اس تک پہنچ جائے تو فون کا نہ ہونا بھی معمول بن جاتا ہے۔
ہیڈٹ تکنیکی حل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں، جیساکہ بچوں کو سمارٹ فون دینے سے بچنے کے لیے بہتر ہے ’بنیادی‘ فونز کا تعارف، فون کے لیے لاک ایبل پاؤچز اور عمر کی تصدیق کے تیز اور آسان طریقے۔
آخر میں حکومتوں کو بھی مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ قوانین، جیساکہ تمام سوشل میڈیا کمپنیوں سے نئے صارفین کی عمروں کی تصدیق کرنے کا مطالبہ کرنا، اور سکولوں کے دوران ’فونز اِن لاکرز‘ کے اصول کو نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے کی پالیسیاں، بڑا اثر ڈال سکتی ہیں۔
ہیڈٹ کے بقول اہم بات یہ ہے کہ تبدیلی لانے میں ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ ’جب نئی مصنوعات صارف خاص طور پر بچوں کے لیے خطرناک پائی جاتی ہیں، تو ہم انہیں واپس کر دیتے ہیں اور جب تک مینوفیکچرر ڈیزائن کو درست نہیں کر دیتا، مارکیٹ سے دور رکھتے ہیں۔ 2010 میں، نوعمر، والدین، سکولوں اور یہاں تک کہ ٹیک کمپنیوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے اتنے نقصان دہ اثرات ہیں۔ اب ہم جانتے ہیں۔‘
جوناتھن ہیڈٹ کی کتاب ’دی اینکشیس جنریشن: ہاؤ دی گریٹ ریوائرنگ آف چائلڈہڈ کوزنگ این اے پیڈیمک آف مینٹل الینس‘ 26 مارچ کو ایلن لین کی جانب سے شائع کی گئی، جس کی قیمت 25 پاؤنڈ ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent