بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کو عام طور پر بندرگاہ، سی پیک اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔
لیکن اسی گوادر کے نرم ریت اور پرسکون ماحول والے ساحل پر ایک ایسی خاموش انقلابی تحریک جنم لے چکی ہے، جو کسی بجٹ کی مرہونِ منت ہے اور نہ کسی عالمی ادارے کی امداد پر چلتی ہے۔ یہ ہے گوادر سکول آف آرٹس، جو ایک عوامی اور مکمل طور پر مقامی خواب ہے۔
یہ سکول شاہینہ رشید اور مرزا غالب بلوچ کی مشترکہ کوشش ہے۔ گوادر بیچ لائبریری کے منتظمین اس سوچ کی برورش میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے کلاسز کے لیے جگہ فراہم کی۔
وہ نہ صرف اپنے ذاتی وسائل بروئے کار لائے بلکہ اپنی توانائی اور وقت کو بھی گوادر کے لیے وقف کر دیا۔ یہاں کوئی عمارت نہیں، کوئی کلاس روم نہیں، لیکن جو کچھ ہے وہ شاید سب سے قیمتی ہے۔ کھلا آسمان، سمندر کی نوجیں اور بچوں کی آنکھوں میں خواب۔
گوادر سکول آف آرٹس ہفتے میں تین دن ساحل پر لگتا ہے، جہاں مختلف علاقوں سے بچے اکٹھے ہوتے ہیں۔ بچے اور بچیاں سکول کے علاوہ یہاں بھی آتے ہیں۔ شاہینہ رشید بچوں کو رنگوں، اشکال اور خطوط کے ذریعے جذبات کے اظہار کا فن سکھاتی ہیں، جب کہ مرزا غالب بلوچ انہیں معاشرتی اور ماحولیاتی موضوعات پر تصویریں بنانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
گوادر سکول آف آرٹس کی چیئر پرسن شاہینہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم نے یہ سکول اس لیے بنایا کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ بچے صرف رٹہ سسٹم کا حصہ نہ بنیں۔ وہ سیکھیں کہ ان کے جذبات، خواب اور احساسات کو بیان کرنے کے اور بھی طریقے ہوتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’گوادر سکول آف آرٹس کے پاس فنڈنگ ہے نہ سپانسر۔ صرف ایک بوری میں رنگ، کچھ برش اور چند کینوس ہیں۔ لیکن ہر ہفتے جب یہ کلاس لگتی ہے تو پورا ماحول تخلیق، خود اعتمادی اور اظہار سے بھر جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ سکول نہ صرف بچوں کو مصور بنا رہا ہے بلکہ انہیں اپنے خطے کی کہانی سنانے والا بنا رہا ہے۔ آج جب ترقیاتی منصوبے گوادر میں زمینوں کی قیمتیں بدل رہے ہیں، یہ سکول گوادر کی اصل روح کو اس کے بچے، اس کا خواب، اور اس کی شناخت محفوظ کر رہا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ساحلی شہر گوادر کے بچوں کی کہانیاں یہاں بننے والی تصاویر صرف خوبصورتی نہیں، بلکہ احتجاج، امید اور خواب کی علامات ہیں۔ کوئی بچہ گوادر کے ساحل پر مچھلیاں پکڑنے والے اپنے والد کی کہانی کینوس پر اتارتا ہے تو کوئی بچی سمندر کے نیلے پانی میں چھپے اپنے خوف اور امنگوں کو رنگوں میں بیان کرتی ہے۔‘
گوادر سکول آف آرٹس کے جنرل سیکرٹری مرزا غالب بلوچ کہتے ہیں’یہ صرف آرٹ نہیں۔ بچوں کے اندر کی آواز ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جن بچوں کو کبھی بولنے کی ہمت نہیں تھی وہ تصاویر کے ذریعے اپنا پیغام پوری دنیا کو دے رہے ہیں۔
مرزا کہتے ہیں: ’ہم فی الحال اپنی مدد آپ کے تحت گوادر سکول آف آرٹس چلا رہے ہیں۔ لیکن یہ کل وقتی حل نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گوادر یا تربت یونیورسٹی میں فائن آرٹس کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا جائے، تاکہ ہمارے بچوں کو مقامی سطح پر اعلیٰ تعلیم اور تربیت کا موقع ملے۔
’یہاں کے بچے اور بچیاں آرٹس کے شعبے سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ بے روزگاری، پسماندگی اور غربت ان کے خوابوں کی تعمیر میں رکاوٹ ہیں۔ ان کے والدین کی اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کی دلچسپی کے میدان کو سنجیدگی سے لیں اور گوادر کے تعلیمی خواب پورے کر سکیں۔