اگرچہ 27 سالہ تخلیقی مارکیٹر کلوئی چھ ہندسوں کی آمدنی کماتی ہیں، مگر وہ ریستوران میں کبھی 18 فیصد سے زیادہ ٹپ نہیں دیتیں اور اگر سروس سست ہو تو یہ شرح 12 یا حتیٰ کہ 10 فیصد تک گر جاتی ہے۔
کلوئی کا یہ ’کنجوس‘ رویہ ویٹرز کی حیرت کا باعث بنتا ہے اور ان کے دوست بھی پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ہیں کیونکہ امریکہ میں ہر چار میں سے ایک شخص باقاعدہ ریستوران میں بیٹھ کر کھانے کی صورت میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ ٹپ دیتا ہے۔
مگر ایک حالیہ سروے سے پتا چلا کہ کلوئی جیسی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
بینکریٹ (Bankrate) کے ایک نئے مطالعے کے مطابق امریکہ میں جنریشن زی (18 تا 28 سال) اور ملینئیلز (29 تا 44 سال) مختلف سروسز جیسے کیفے، بارز اور ریستورانوں میں ٹپ دینے کے لحاظ سے سب سے کم فراخ دل پائے گئے۔
درحقیقت اعداد و شمار کے مطابق 57 فیصد جنریشن زی افراد نے تسلیم کیا کہ وہ ہر بار بیٹھ کر کھانے والے ریستورانوں میں ٹپ نہیں دیتے جو تمام نسلوں میں سب سے کم شرح ہے۔
دی انڈپینڈنٹ سے بات کرنے والے نوجوان اس حوالے سے منقسم نظر آئے۔ بہت سے افراد نے تسلیم کیا کہ بیٹھ کر کھانے والے ریستوران میں ٹپ دینا ایک سماجی روایت ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر ضرورت پڑے تو وہ اسے نظر انداز کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق خراب سروس، کھانے کے لیے طویل انتظار، یا کسی اور ناخوشگوار تجربے کی صورت میں وہ یا تو بہت کم ٹپ دیتے ہیں یا بالکل نہیں دیتے۔
کولوراڈو سے تعلق رکھنے والی 23 سالہ سارہ ہینا وے کہتی ہیں ’میرے لیے ٹپ 20 فیصد سے کم تب ہی ہوتی ہے جب تین چیزیں اکٹھی خراب ہوں — سست عملہ، بے رخی، اور اوسط درجے کا کھانا۔
’میں اس وقت بالکل ٹپ نہیں دیتی جب کوئی محنت شامل ہی نہ ہو، مثلاً کافی شاپ سے پانی کی بوتل لینا۔‘
فلوریڈا میں سینٹ پیٹرزبرگ کی کمیونیکشنز کوآرڈینیٹر 26 سالہ سارہ کہتی ہیں ’میں ہمیشہ ٹپ دیتی ہوں چاہے جو بھی ہو لیکن اگر ویٹر کی وجہ سے میرا دماغ خراب ہو جائے تو یہ 20 فیصد سے کم ہو جاتی ہے۔
’میں صرف اسی صورت میں ٹپ نہیں دیتی جب کچھ انتہائی برا ہو جائے جیسے میرے کھانے میں تھوک دینا یا مجھے مارنے کی کوشش کرنا۔‘
نیویارک سے تعلق رکھنے والے ایک 28 سالہ فرد (جنہوں نے اپنی ٹپ دینے کی عادات کے انکشاف پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے مختلف درجے کی گمنامی کی درخواست کی ہے) نے اتفاق کرتے ہوئے کہا میں صرف اسی صورت میں ٹپ نہ دینے پر غور کروں گا جب میں نے خاص طور پر کچھ کہا ہو کہ میں ڈیری نہیں لیتا اور انہوں نے پھر بھی مجھے ڈیری دے دی یا جب میں نے اسے واپس کیا تو وہ بے رخی کرنے لگے۔
دوسرے لوگ اپنی ناراضی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ لاس اینجلس کی 25 سالہ بیکا فلسنک کہتی ہیں ’اگر معاملہ واقعی بہت خراب ہو جائے تو میں تین سے پانچ فیصد ٹپ دیتی ہوں اور ساتھ کوئی بدتمیز سا نوٹ چھوڑ دیتی ہوں۔جیسے ’آپ کا دن اچھا گزرے!‘ یا ’آپ کی شاندار سروس کا شکریہ۔‘
’بالکل ٹپ نہ دینا؟ — میں نہیں جانتی، شاید اگر وہ ٹرمپ کے حامی ہوں۔‘
نوجوانوں کے ان نرم مگر طنزیہ احتجاجی رویوں کے برعکس سب سے زیادہ ٹپ دینے والی نسل بے بی بومرز (61 سے 79 سال کی عمر کے افراد) ہیں۔ اگرچہ وہ اس بارے میں خوش نہیں۔
اسی مطالعے میں یہ بھی پایا گیا کہ 84 فیصد بے بی بومرز ہمیشہ بیٹھ کر کھانے والے ریستورانوں میں ٹپ دیتے ہیں، لیکن ان میں سے 68 فیصد ٹپ دینے کے عمل کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔
اس کے برعکس، ایک کم شرح کے ساتھ، 57 فیصد جنریشن زی افراد ٹپ دینے کو ایک ’ضروری برائی‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، خاص طور پر موجودہ معاشی حالات اور سروس انڈسٹری کے کام کرنے کے طریقے کو مدنظر رکھتے ہوئے۔
نیویارک کا ایک 26 سالہ نوجوان کہتا ہے ’جب سروس خراب بھی ہو تو میں پھر بھی 20 فیصد ٹپ دیتا ہوں اگر میں بیٹھ کر کھا رہا ہوں۔
’میرے خیال میں فوڈ انڈسٹری کا ملازمین کو گزارے کے قابل تنخواہ نہ دینا بالکل بکواس ہے — وہ کسی کی پوری روزی روٹی ہے۔‘
کچھ لوگ جب سمجھتے ہیں کہ اضافی ٹپ بنتی ہے تو وہ مزید دیتے ہیں۔27 سالہ اسٹیفنی پرل کہتی ہیں ’ایک دن میں نے ٹیبل/فرش پر سب کچھ گرا دیا اور انہوں نے اسے صاف کیا تو میں نے تھوڑ زیادہ ٹپ دی۔‘
بینکریٹ کے سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ صرف 25 فیصد جنریشن زی افراد ہمیشہ اپنے ہیئر سٹائلسٹس یا حجام کو ٹپ دیتے ہیں اور صرف 23 فیصد ٹیکسی یا رائیڈ شیئر ڈرائیورز کو باقاعدگی سے ٹپ دیتے ہیں۔
دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے ایک گمنام جنریشن زی فرد نے اعتراف کیا کہ اوبر ڈرائیور کو کبھی ٹپ نہ دینا ان کی ’مہلک خامی‘ ہے۔
بینکریٹ کے سینیئر انڈسٹری تجزیہ کار ٹیڈ راسمن نے ان مایوسیوں کو یوں سمیٹا جو بہت سے لوگ اس پریشان کن ’ٹپ شامل کریں‘ والی سکرین کو دیکھ کر محسوس کرتے ہیں — خاص طور پر جب ایسا لگتا ہے کہ کوئی سروس مہیا ہی نہیں کی گئی۔
’زندگی گزارنے کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، اور بہت سے لوگ حالیہ برسوں میں ٹپ کے بڑھتے رجحان سے نالاں ہیں کیونکہ ہمیں ان جگہوں پر بھی ٹپ دینے کے لیے کہا جا رہا ہے جہاں پہلے کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔‘
تاہم، کچھ افراد اپنے ہم عمروں کی عادات سے بالکل لاعلم نظر آتے ہیں۔23 سالہ لیام بیکسر نے کہا ’ہم سب سے بہترین ٹپ دینے والے ہیں، ہم ہر جگہ ٹپ دیتے ہیں۔‘
© The Independent