سندھ: 93 ہزار اساتذہ کی بھرتی، حاضری کیسے یقینی بنائی جائے گی؟

محکمہ تعلیم سندھ نے یکم جولائی کو 31 ہزار 75 خواتین سمیت 93 ہزار اساتذہ کو آفر لیٹرز جاری کیے ہیں۔

سندھ کے محکمہ سکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی کے سیکریٹری زاہد علی عباسی نے بتایا ہے کہ صوبائی محکمہ تعلیم نے 93 ہزار اساتذہ کو ایک ساتھ بھرتی کر کے آفر لیٹر دیے ہیں۔

ان بھرتیوں کی وجہ انہوں نے اساتذہ کی کمی کے باعث متعدد سکول غیر فعال ہونے، صوبے کے سکولوں میں عالمی معیار کے مطابق اساتذہ کی مطلوبہ تعداد نہ ہونے اور کئی سالوں سے ریٹائرڈ ہونے والے اساتذہ کی آسامیاں بھرنا قرار دیا۔

محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے یکم جولائی کو 31 ہزار 75 خواتین اساتذہ سمیت 93 ہزار اساتذہ کو ایک ساتھ آفر لیٹرز جاری کیے گئے، جن میں 65 ہزار 147 پرائمری سکول ٹیچرز اور 27 ہزار جونیئر ایلیمنٹری سکول ٹیچرز شامل ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں زاہد علی عباسی نے بتایا کہ صوبے میں ہر سال کئی ہزار اساتذہ ریٹائر ہو جاتے ہیں، مگر محکمہ تعلیم سندھ کی جانب سے بڑے عرصے سے کوئی بھرتیاں نہیں کی گئیں، جس کے باعث صوبے میں اساتذہ کی کمی تھی اور پانچ ہزار سے زیادہ سکول غیر فعال تھے۔

زاہد علی عباسی کے مطابق: ’کئی سکولوں میں اساتذہ مقرر نہیں تھے۔ متعدد سکولوں میں طلبہ کی تعداد 100 یا 200 تھی مگر وہاں ایک استاد کام کر رہا تھا۔ ہم نے 2021 میں فیصلہ کیا کہ صوبے میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے لیے نئی بھرتیاں کی جائیں۔ اس مقصد کے لیے بھرتیوں کو شفاف بنانے اور میرٹ کی خاطر ہم نے تھرڈ پارٹی یعنی آئی بی اے سکھر کی معرفت بھرتیاں کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا: ’آئی بی اے سکھر نے اساتذہ کی اسامیوں کے لیے دلچسپی رکھنے والے امیدواروں سے مختلف اوقات میں امتحان لیا، جس کے بعد میرٹ پر امتحان پاس کرنے والوں کی فہرستیں بنیں اور آخر کار کامیاب ہونے والے امیدواروں کو آفر لیٹر جاری کیے گئے۔‘

زاہد علی عباسی کے مطابق نئی بھرتی ہونے والے 93 ہزار اساتذہ صوبے کے 41 ہزار 129 سکولوں کا حصہ بنیں گے جبکہ ان تقرریوں کے باعث صوبے کے پانچ ہزار سے زیادہ غیر فعال سکولوں کو دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے۔ اس بھرتی کے عمل میں 1330 خصوصی افراد اور 2100 اقلیتی امیدواروں کو بھی بطور استاد منتخب کیا گیا ہے۔

ماضی میں سرکاری سکولوں سے غیر حاضر رہنے والے اساتذہ یعنی ’گھوسٹ ٹیچرز‘ کے معاملے پر جب سیکریٹری محکمہ تعلیم سے پوچھا گیا کہ ’اتنی بڑی تعداد میں بھرتی ہونے والے اساتذہ کی سکولوں میں حاضری کو کس طرح یقینی بنائے جائے گا؟‘ تو زاہد علی عباسی نے اعتراف کیا کہ ماضی میں تقریباً 2015 تک صوبے کے سکولوں میں گھوسٹ ٹیچرز رپورٹ ہوتے تھے، جو سرکاری ریکارڈ میں اساتذہ مقرر تھے، مگر وہ سکولوں میں تعلیم دینے کے بجائے غیر حاضر رہتے تھے۔

’محکمہ تعلیم نے اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے بائیو میٹرک شروع کیا، جو انٹرنیٹ پر چلتا تھا، مگر کسی جگہ اگر انٹرنیٹ نہ ہو تو وہاں موجود استاد کو بھی غیر حاضر ظاہر کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ محکمے کی جانب سے گھوسٹ ٹیچرز کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کر کے غیر حاضر ہونے والے اساتذہ کو نوکری سے نکال دیا گیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس وقت صوبے کے تعلیمی اداروں میں کچھ اس طرح کے اساتذہ تاحال موجود ہیں، جن کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور جلد تمام اساتذہ کو ہر صورت میں حاضری کا پابند بنایا جائے گا۔

’اگست سے ہم نے اساتذہ کی حاضری کے لیے جدید ایپ لانچ کرنے کا منصوبے بنایا ہے، جو بغیر انٹرنیٹ کے بھی کام کرے گا، جس میں استاد کے چہرے کو سکین کرنے کے ساتھ سکول کی جیو میپنگ بھی ہو گی، جس سے اساتذہ کی حاضری 100 فیصد تک ہو جائے گی۔‘

زاہد علی عباسی کے مطابق سندھ میں اس وقت سرکاری سکولوں کی تعداد 41 ہزار ہے، جن میں 34 ہزار پرائمری سکول اور 6000 ایلیمنٹری سکول، مڈل سکول، ہائی سکول اور ہائیر سیکنڈری سکول ہیں، جن میں 55 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔

بقول زاہد علی عباسی: ’اس وقت سندھ میں سکول جانے کی عمر والے ایک کروڑ 68 لاکھ بچے ہیں، جن میں 41 ہزار سرکاری سکولوں میں 55 لاکھ بچے، 11 ہزار نجی تعلیمی اداروں میں 40 لاکھ اور محکمہ تعلیم کے ذیلی ادارے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تین ہزار سکولوں میں 10 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد دینی مدارس میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔

’کُل ایک کروڑ 68 لاکھ بچوں میں سے ایک کروڑ 10 لاکھ بچے زیر تعلیم ہیں۔ باقی بچوں کو سکول لانے کے لیے محکمہ تعلیم سندھ مختلف اقدامات کر رہا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل