انڈیا: طلبہ کی حاضری کے لیے اے آئی نظام متعارف کرانے کی تجویز

یہ مجوزہ نظام طلبہ کے چہرے کو حقیقی وقت میں شناخت کر سکتا ہے جس کے لیے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔

آٹھ اپریل 2025 کو لی گئی اس تصویر میں ایک ٹیچر انڈیا کی ریاست راجستھان کے گاؤں کلیان پور کے ایک سرکاری پرائمری اسکول کے کلاس روم میں طلبہ کو پڑھا رہی ہیں (اے ایف پی)

انڈین ریاست کرناٹک میں طلبہ کی حاضری پر نظر رکھنے کے لیے چہرہ شناخت کرنے والے مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام متعارف کرانے کی تجویز دی گئی ہے تاہم بچوں کے حقوق کی تنظیموں اور ماہرین نے اس تجویز پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

کرناٹک میں محکمہ سکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی موبائل فون استعمال کرتے ہوئے چہرے کو شناخت کر کے طلبہ کی حاضری لگانے کا منصوبہ بنا رہا ہے، جو سٹوڈنٹس اچیومنٹ ٹریکنگ سسٹم (ایس اے ٹی ایس) یعنی طلبہ کی نگرانی کے لیے بنایا گیا سرکاری ڈیٹا بیس ہے۔

قبل ازیں حکام نے کہا کہ چہرہ شناخت کرنے کا نظام سرکاری فلاحی منصوبوں سے مستفید ہونے والے افراد کو ٹریک کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر مڈ ڈے میل جس کے تحت طلبہ کو سکول میں مفت کھانے کے دنیا کے سب سے بڑے پروگرام کے تحت دوپہر کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔

ریاستی حکومت کے مطابق ایک الگ موبائل ایپ تیار کی گئی ہے جس میں حاضری کا نظام موجود ہے جسے 2025، 2026 کے تعلیمی سال کے دوران عملی شکل دی جائے گی۔ اخبار دی ہندو کے مطابق تمام طلبہ کے کوائف کو پہلے ہی سٹوڈنٹس اچویومنٹ ٹریکنگ سسٹم میں شامل کر دیا گیا ہے۔

یہ نظام طلبہ کے چہرے کو حقیقی وقت میں شناخت کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے یہ نظام چہرے کو شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے۔ ایک بار موبائل فون کے کیمرے کے ذریعے تصویر بن جانے کے بعد اس کی کوڈنگ ہو گی اور اس منفرد شناختی کوڈ میں تبدیل کر دیا جائے گا جو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حکام نے کہا کہ اس یہ عمل ذاتی معلومات اور ڈیٹا کی حفاظت یقینی بنائے گا۔

ماہرین تعلیم، اساتذہ کی یونینوں، والدین کی تنظیموں اور سول سوسائٹی اداروں کے اتحاد نے کرناٹک حکومت کو خبردار کیا ہے کہ چہرہ شناسی کا نظام بچوں کو ڈیٹا کے غلط استعمال، استحصال اور بدسلوکی کے شدید خطرات سے دوچار کر سکتا ہے۔

31  ماہرین اور تنظیموں پر مشتمل اس اتحاد نے پیر کو وزیر اعلیٰ سدارمیاہ کو خط لکھ کر حکومت سے یہ فیصلہ واپس لینے کی اپیل کی۔ خط میں کہا گیا کہ ’سکول محفوظ مقامات ہونے چاہییں۔‘

خط پر دستخط کرنے والوں نے خبردار کیا کہ اگر بچوں کا چہرے کا ڈیٹا افشا یا چوری ہو گیا تو اس کے ’ناقابل تصور نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جن میں ڈیٹا کا انسانی سمگلروں اور مجرموں کے ہاتھ لگ جانا بھی شامل ہے۔‘

اس اتحاد نے ممکنہ جنسی استحصال پر بھی خدشات کا اظہار کیا، خاص طور پر ڈیپ فیک ٹولز کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق پیپلز الائنس فار فنڈامنٹل رائٹ ٹو ایجوکیشن کے کنوینر نرانجنارادھیا وی پی کا کہنا تھا کہ ’چہرہ شناخت کر کے نگرانی کا نظام متعارف کرانے سے ہم بچوں کے لیے تحفظ کے بجائے کمزوریاں پیدا کر رہے ہیں۔ سکولوں کو محفوظ مقامات رہنا چاہیے، نگرانی کے زون نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ حکومت پہلے ہی ہر سکول میں سکول ڈویلپمنٹ اینڈ مانیٹرنگ کمیٹیاں لازمی قرار دے چکی ہے۔
نِرانجنارادھیا نے مزید کہا کہ ’اگر ان (کمیٹیوں) کو مضبوط اور سپورٹ کیا جائے تو وہ نگرانی کے کسی بھی آلے سے کہیں زیادہ جوابدہی یقینی بنا سکتی ہیں۔

ریاستی حکومت نے کہا کہ چہرہ شناسی اس پروگرام میں کل 52686 سکول شامل ہوں گے، جن میں 46460 سرکاری اور 6226 امداد لینے والے سکول شامل ہیں۔ اس ایپلی کیشن کو پانچ لاکھ 25 ہزار سے زائد طلبہ کی حاضری کی نگرانی کے لیے بنایا گیا۔

گذشتہ سال اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے حق تعلیم فریدہ شہید نے تعلیمی اداروں میں چہرہ شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی کے استعمال پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی