مصنوعی ذہانت کی مدد سے 25 سال بعد خاتون کی کھوئی ہوئی آواز واپس

سارہ ایزیکیئل، جو ایک آرٹسٹ ہیں، 25 سال قبل اس وقت اپنی آواز سے محروم ہو گئیں جب ان کی عمر 34 برس تھی اور وہ اپنے دوسرے بچے کے ساتھ حاملہ تھیں، اور انہیں موٹر نیورون بیماری (ایم این ڈی) کی تشخیص ہوئی۔

سارہ ایزکیل اور ان کے بیٹے ایرک 16 اگست 2025 کو ہینڈن، شمالی لندن میں اپنے گھر موجود ہیں۔ سارہ کو 25 سال قبل دوسرے حمل کے دوران موٹر نیورون کی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی (سمارٹ باکس اسسٹیو ٹیکنالوجی / اے ایف پی)

ایک برطانوی خاتون، جو موٹر نیورون بیماری( ایم این ڈی) کا شکار ہیں اور اپنی آواز کھو چکی تھیں، اب ایک پرانی گھر میں بنائی گئی ویڈیو کی محض آٹھ سیکنڈ کی مدھم ریکارڈنگ اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایک بار پھر اپنی اصلی آواز میں بولنے کے قابل ہو گئی ہیں۔

سارہ ایزیکیئل، جو ایک آرٹسٹ ہیں، 25 سال قبل اس وقت اپنی آواز سے محروم ہو گئیں جب ان کی عمر 34 برس تھی اور وہ اپنے دوسرے بچے کے ساتھ حاملہ تھیں، اور انہیں موٹر نیورون بیماری (ایم این ڈی) کی تشخیص ہوئی۔

یہ بیماری بتدریج اعصابی نظام کو نقصان پہنچاتی ہے، جس کے باعث زبان، منہ اور حلق کے عضلات کمزور ہو جاتے ہیں، اور بعض اوقات مریض مکمل طور پر بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

تشخیص کے بعد کے برسوں میں، شمالی لندن سے تعلق رکھنے والی ایزیکیئل کمپیوٹر اور آواز پیدا کرنے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے بات چیت کرنے کے قابل ہوئیں، اگرچہ وہ آواز ان کی اپنی آواز سے بالکل مختلف تھی۔

وہ کمپیوٹر کرسر کی مدد سے اپنی تصویری تخلیقات جاری رکھتے ہوئے بطور آرٹسٹ اپنا کیریئر بھی برقرار رکھ سکیں۔

مگر ان کے دو بچے، اویوا اور ایرک، اپنی والدہ کی اصل آواز کبھی نہ سن سکے۔

حالیہ برسوں میں ماہرین ایسی ٹیکنالوجی تیار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو کسی شخص کی اصل آواز کے قریب ترین مصنوعی آواز پیدا کر سکتی ہے۔

برطانوی طبی مواصلاتی کمپنی سمارٹ باکس کے سائمن پول نے بتایا کہ اس کے لیے عموماً طویل اور معیاری ریکارڈنگز درکار ہوتی ہیں، اور اس کے باوجود تیار شدہ آوازیں اگرچہ مریض کی اصل آواز سے کچھ مشابہت رکھتی ہیں، لیکن وہ ’ اتار چڑھاؤ کے بغیر اور یکساں‘ محسوس ہوتی تھیں۔

پول کے مطابق ان کی کمپنی نے ابتدا میں ایزیکیئل سے ایک گھنٹے کی آڈیو مانگی تھی۔

ایسے افراد جو ایم این ڈی جیسی بیماریوں کے باعث بولنے کی صلاحیت کھونے والے ہوتے ہیں، انہیں جلد از جلد اپنی آواز ریکارڈ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ ان کی ’شناخت‘ اور بات چیت کی صلاحیت محفوظ رہ سکے۔ تاہم سمارٹ فون سے قبل کے دور میں ایسی ریکارڈنگز کا دستیاب ہونا عام نہیں تھا۔

ایزیکیئل صرف ایک مختصر اور ناقص معیار کی آٹھ سیکنڈ کی ہوم ویڈیو کلپ فراہم کر سکیں، جس پر پول نے مایوسی کا اظہار کیا۔

’تقریباً رو پڑیں‘

یہ کلپ 1990 کی دہائی کی ایک ویڈیو سے لیا گیا تھا، جس میں پس منظر میں ٹی وی کی آواز بھی موجود تھی۔ پول نے نیویارک کی کمپنی الیون لیبز کی تیار کردہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کا سہارا لیا، جو انتہائی کم مواد کی بنیاد پر بھی نہ صرف آواز تیار کرتی ہے بلکہ اسے حقیقی انسانوں جیسا بھی بناتی ہے۔

انہوں نے پہلے ایک اے آئی ٹول سے کلپ میں سے آواز کو الگ کیا، پھر دوسرے ٹول سے، جسے اصل آوازوں پر تربیت دی گئی ہے، حتمی آواز تیار کی۔

نتیجہ ایزیکیئل کے لیے حیرت انگیز تھا، کیونکہ بننے والی آواز نہ صرف ان کی اصل آواز سے بہت مشابہ تھی بلکہ اس میں ان کا لندن والا لہجہ اور وہ ہلکی سی ہکلاہٹ بھی شامل تھی جسے وہ کبھی ناپسند کرتی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پول نے بتایا: ’میں نے جب انہیں آواز کے نمونے بھیجے تو انہوں نے مجھے ای میل میں لکھا کہ یہ سن کر وہ تقریباً رو پڑی تھیں۔‘

پول نے کہا: انہوں نے یہ آواز ایک ایسے دوست کو سنائی جو انہیں اس وقت سے جانتا تھا جب  ان کی آواز نہیں گئی تھی، اور اُس دوست کے لیے یہ ایسے تھا جیسے ان کی اپنی آواز واپس آ گئی ہو۔‘

برطانیہ کی موٹر نیورون ڈیزیز ایسوسی ایشن کے مطابق، ہر 10 میں سے آٹھ مریض اپنی آواز کے مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔ تاہم موجودہ کمپیوٹر سے تیار کردہ آوازوں کا وقت، پچ اور لہجہ ’کافی حد تک مشینی محسوس ہو سکتا ہے۔‘

پول نے کہا: ’نئی اے آئی ٹیکنالوجی کی اصل کامیابی یہ ہے کہ اب تیار کی گئی آوازیں واقعی انسانی اور جذباتی محسوس ہوتی ہیں، اور وہ انسانیت کو اس آواز میں واپس لے آتی ہیں جو پہلے کچھ مشینی سی لگتی تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ کسی کی آواز کو ویسا ہی بنانا جیسی تھی دراصل اس کی ’شناخت‘محفوظ رکھنے کا طریقہ ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’خاص طور پر اگر آپ کو زندگی کے کسی بعد کے مرحلے میں کوئی بیماری لاحق ہو جائے اور آپ اپنی آواز کھو بیٹھیں، تو اپنی اصل آواز میں بولنے کے قابل ہونا واقعی بہت اہم ہوتا ہے، اس کے بجائے کہ آپ کوئی تیار شدہ (مشینی) آواز استعمال کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس