مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) یا اے آئی کو پہلے پہل سائنس فکشن فلموں کا حصہ سمجھا جاتا تھا، لیکن اب یہ ہماری روزمرہ زندگی کا حقیقت پسندانہ حصہ بن چکی ہے۔
اگلے پانچ سال یعنی 2030 تک اے آئی صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں رہے گی بلکہ یہ ایک ایسا انفراسٹرکچر بن جائے گی جو معیشت، تعلیم، صحت، کاروبار اور ذاتی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو بدل دے گی۔
سوال یہ نہیں کہ ’اے آئی آئے گی یا نہیں‘، سوال یہ ہے کہ ہم اس کے لیے کتنی تیاری کر چکے ہیں۔
2030 تک متوقع بڑی تبدیلیاں
1۔ کام کرنے کے طریقوں میں انقلاب
2030 تک دنیا کے بیشتر شعبوں میں انسان کے بجائے اے آئی پر مبنی خودکار نظام اہم کردار ادا کریں گے۔ فیکٹریوں میں مشینیں خود پروڈکشن لائن سنبھالیں گی، دفتروں میں کاغذی کارروائی مکمل طور پر ڈیجیٹل اور خودکار ہوگی اور ڈیٹا اینالیسس یا ریسرچ جیسے کام سیکنڈز میں مکمل ہو جائیں گے۔
مثال: اکاؤنٹنگ کے شعبے میں، جہاں پہلے ایک ٹیم پورا ہفتہ مالی رپورٹ تیار کرتی تھی، اب اے آئی چند سیکنڈز میں یہ کام مکمل کر سکتی ہے۔
2۔ صحت کا شعبہ اور ذاتی علاج
اے آئی نہ صرف بیماریوں کی تشخیص کرے گی بلکہ 2030 تک ذاتی نوعیت کے علاج (Personalized Medicine) عام ہو جائیں گے۔ مشینیں آپ کے جینیاتی ڈیٹا اور لائف سٹائل کا تجزیہ کر کے آپ کے لیے مخصوص علاج تجویز کریں گی۔
مثال: دل کے مریض کے لیے اے آئی پر مبنی مانیٹر مسلسل بلڈ پریشر، شوگر لیول اور دل کی دھڑکن کا ڈیٹا اکٹھا کر کے خودکار طریقے سے ڈاکٹر کو الرٹ بھیجے گا۔
3۔ تعلیم کی شکل بدل جانا
روایتی کلاس رومز کے بجائے اے آئی ٹیوٹرز اور ایڈاپٹیو لرننگ پلیٹ فارمز عام ہو جائیں گے۔ ہر طالب علم کے لیے نصاب اور تدریس کا انداز اس کی رفتار اور سمجھ کے مطابق خودکار طور پر ڈیزائن ہو گا۔
مثال: ایک بچے کو میتھس میں مشکل ہے تو اے آئی اسے آسان مثالوں اور گیمز کے ذریعے سمجھائے گا، جبکہ دوسرا بچہ جسے سائنس میں دلچسپی ہے، اسے اعلیٰ سطح کے سائنسی تجربات پر فوکس کروایا جائے گا۔
4۔ ٹرانسپورٹ اور لاجسٹکس میں خود مختاری
سیلف ڈرائیونگ کاریں، ڈرون ڈیلیوری سروسز اور خودکار ریل سسٹمز عام ہو جائیں گے۔ اس سے نہ صرف ڈرائیورز اور ڈیلیوری ورکرز کی نوکریاں کم ہوں گی بلکہ لاجسٹکس انڈسٹری کا پورا ڈھانچہ بدل جائے گا۔
مثال: 2030 میں آپ کا پیزا شاید ایک ڈرون لا کر دے گا اور بڑی ٹریکنگ کمپنیوں کے قافلے بغیر ڈرائیورز کے ہزاروں کلومیٹر سفر طے کریں گے۔
5۔ میڈیا، تخلیقی فنون اور صحافت میں تبدیلی
خبریں لکھنے، فلم کے سکرپٹس تیار کرنے، میوزک کمپوز کرنے اور گرافکس ڈیزائن کرنے میں اے آئی بڑے پیمانے پر شامل ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ میڈیا انڈسٹری میں کم عملہ زیادہ پیداوار دے سکے گا۔
مثال: ایک صحافی اے آئی کو بنیادی حقائق دے کر چند سیکنڈز میں مکمل خبر تیار کروا سکے گا، جو فوری طور پر اشاعت کے لیے تیار ہوگی۔
عام انسان پر اثرات
نوکریوں کا بدلنا، ختم ہونا نہیں
اے آئی کے آنے سے بہت سی موجودہ نوکریاں ختم ہوں گی، لیکن اس کے ساتھ نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نئی نوکریوں کے لیے مختلف مہارتوں کی ضرورت ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خطرے کا شکار نوکریاں: ڈیٹا انٹری، بینک ٹیلرز، بیسک کسٹمر سروس، لوکل ٹرانسپورٹ ڈرائیورز اور مینوفیکچرنگ کے روایتی ورکرز۔
ابھرنے والی نوکریاں: اے آئی سسٹمز کے ٹرینرز، ڈیٹا سکیورٹی سپیشلسٹس، اے آئی ماڈل ڈیزائنرز، روبوٹ مینٹیننس ایکسپرٹس اور ڈیجیٹل تخلیق کار۔
زندگی کے روزمرہ کام آسان ہونا
گھر کے کام کاج، بلوں کی ادائیگی، خریداری اور سفر سب خودکار اور ذاتی نوعیت کے بن جائیں گے۔ اے آئی اسسٹنٹس آپ کے شیڈول کو سنبھالیں گے، خریداری میں بہترین ڈیلز تجویز کریں گے اور گھریلو آلات خود ہی مرمت کے لیے سروس کال کریں گے۔
ذاتی ڈیٹا اور پرائیویسی کا چیلنج
اے آئی کے بڑھتے استعمال کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ پرائیویسی اور ڈیٹا سکیورٹی ہوگا۔ چونکہ اے آئی آپ کی زندگی کا ہر پہلو جانتا ہوگا، اس سے معلومات کا غلط استعمال ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
2030 کے لیے تیاری کیسے کریں؟
مستقبل کی مہارتیں سیکھیں
۔ ٹیکنیکل سکلز: پروگرامنگ، ڈیٹا اینالیسس، اے آئی ماڈلنگ، سائبر سکیورٹی۔
۔ سافٹ سکلز: کری ایٹیو تھنکنگ، پرابلم سولونگ، کمیونیکیشن۔
اے آئی کو اپنا ہتھیار بنائیں
اے آئی سے خوفزدہ ہونے کے بجائے اسے اپنی پروڈکٹیویٹی بڑھانے کے لیے استعمال کریں۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک فری لانس گرافک ڈیزائنر ہیں تو اے آئی ٹولز کے ذریعے کم وقت میں زیادہ ڈیزائن تیار کر سکتے ہیں۔
اخلاقی اور قانونی سمجھ بوجھ پیدا کریں
2030 تک اے آئی کے استعمال کے قوانین اور ضوابط سخت ہوں گے۔ ان قوانین کی سمجھ اور ان پر عمل کرنا ہر پروفیشنل کے لیے لازمی ہو گا۔
زندگی بھر سیکھنے کا رویہ اپنائیں
اے آئی کی رفتار اتنی تیز ہے کہ ایک بار سیکھی گئی مہارتیں بھی چند سال میں پرانی ہو سکتی ہیں، اس لیے لائف لونگ لرننگ (Life-long Learning) کو اپنی عادت بنائیں۔
نتیجہ
2030 تک مصنوعی ذہانت ہماری دنیا کو ایک ایسے موڑ پر لے آئے گی جہاں انسان اور مشین کا فرق کم محسوس ہوگا۔ یہ تبدیلی ناگزیر ہے اور اس سے بچنے کے بجائے ہمیں اس کا حصہ بننا ہوگا۔ جو لوگ آج سے تیاری شروع کریں گے، وہ کل کی دنیا میں کامیاب ہوں گے۔
یاد رکھیں، اے آئی آپ کی جگہ نہیں لے گا، بلکہ وہ شخص لے گا، جو اے آئی کو آپ سے بہتر استعمال کرنا جانتا ہوگا۔
حیدر جناح مالیاتی جرائم کی روک تھام کے شعبے میں 14 سال سے زائد کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ اس وقت وہ اسی شعبے میں ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں اور مالیاتی جرائم کی تعلیم و تربیت میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ وہ تخلیقی تحریر، فلم سکرپٹ رائٹنگ اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔