یورپ: گرمی اور بڑھتا درجہ حرارت سیاحت کو کیسے بدل رہے ہیں؟

میں بارسلونا میں مقیم سفرنامے تحریر کرنے والی لکھاری ہوں اور اس صورت حال کے بارے میں مثبت بات کہنا مشکل ہے، سوائے اس امید کے کہ شاید اس سے سیاحوں کو یہ ترغیب ملے کہ وہ گرمیوں کے عروج کے مہینوں میں مصروف مقامات پر جانے سے گریز کریں۔

دو جولائی 2025 کو میڈرڈ میں ہیٹ ویو کے دوران رائل پیلس کے قریب پلازہ ڈی ایسپانا میں سیاح فوارہ دیکھ رہے ہیں (تھامس کاکس / اے ایف پی)

انسانی فطرت کا ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ جب ہمیں بہت زیادہ گرمی لگ رہی ہو تو یہ تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کبھی زیادہ سردی بھی محسوس ہو سکتی ہے۔ جب ہمیں بہت سردی لگ رہی ہو تو یہ ماننا مشکل ہوتا ہے کہ کبھی زیادہ گرمی بھی لگ سکتی ہے۔

 برطانیہ اور آئرلینڈ کے لوگوں کی گرمیوں کی دھوپ میں بھرپور چھٹیاں گزارنے کی خواہش بہت مضبوط ہے لیکن شمالی یورپ کے سیاح اب یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ اٹلی، سپین اور فرانس جیسے پسندیدہ مقامات پر بڑھتا ہوا درجہ حرارت چھٹیوں کو اسی طرح خراب کر سکتا ہے جیسے  برطانیہ کے علاقے کورن وال میں مسلسل بارش کیمپنگ ٹرپ کو بگاڑ دیتی ہے۔

میری دوست کیٹ جو سکاٹ لینڈ میں فیسٹیول پروگرامر ہیں، حال ہی میں میلان سے واپس آئی ہیں۔ ان کا یہ سفر موسم گرما کی ابتدا میں ثقافتی سرگرمیوں سے بھرپور چھٹیاں گزارنے کے لیے تھا لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میرے لیے آنکھ کھول دینے والا تجربہ تھا، کیوں  کہ شدید گرمی کی وجہ سے میں اپنی چھٹیاں اس طرح نہیں گزار پائی جس طرح میں نے منصوبہ بندی کی۔‘

’ہمیں جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ دوپہر کی گرمی میں بغیر ایئرکنڈیشن کے عجائب گھر دیکھنا ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ہم نے ہر طرح کی ملاقاتوں کا وقت دوبارہ طے کیا اور صبح سویرے یا شام دیر تک کے وقت کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔ ہم نے ان مختصر فاصلوں کے لیے بھی ٹیکسی کا خرچہ برداشت کیا جنہیں ہم نے پیدل طے کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس لیے مرکزی جگہ پر ٹھہرنے کے لیے رقم ادا کرنے کا فائدہ ہی نہیں ہوا۔‘

ایڈنبرا سے سفر کرتے ہوئے وہ لوگ اٹلی کی دھوپ کے منتظر تھے لیکن جیسا کہ اس نے کہا کہ ’پہلی بار مجھے اندازہ ہوا کہ شدید گرمی چھٹیوں میں رکاوٹ بن سکتی ہے، بلکہ شاید خطرہ بھی ہو سکتی ہے۔‘

یہ بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ یورپ بھر میں شدید گرمی کی لہر اور بڑھتا ہوا درجہ حرارت صرف چھٹیوں کو خراب کرنے سے کہیں زیادہ سنگین نتائج کا سبب ہے۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا کہ حالیہ 10 دن کی یورپی ہیٹ ویو (جو جولائی کے شروع میں کچھ کم ہوئی) 12 یورپی شہروں میں 2300 سے زائد اموات کا سبب بنی۔ اس کا سب سے زیادہ اثر بڑی عمر کے افراد، بچوں، مختلف بیماریوں کے شکار لوگوں، اور تعمیراتی یا باہر کام کرنے والے دوسرے محنت کشوں پر پڑا۔

مختصر دورانیے کی شدید گرمی کی لہر کو چھوڑ بھی دیں تو درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ بگڑتے ہوئے موسمیاتی بحران کی سنگین علامت ہے۔ یورپی یونین کے کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کے مطابق گذشتہ مہینہ ریکارڈ پر زمین کا تیسرا سب سے زیادہ گرم جون تھا۔

میں بارسلونا میں مقیم سفرنامے تحریر کرنے والی لکھاری ہوں اور اس صورت حال کے بارے میں مثبت بات کہنا مشکل ہے، سوائے اس امید کے کہ شاید اس سے سیاحوں کو یہ ترغیب ملے کہ وہ گرمیوں کے عروج کے مہینوں میں مصروف مقامات پر جانے سے گریز کریں۔ جیسا کہ کیٹ کہتی ہیں کہ ’اگلے سال ہمارا ارادہ میڈرڈ میں ایک ویک اینڈ کلچرل ٹرپ کا ہےلیکن مارچ میں۔ میں اب کبھی جولائی یا اگست میں اس طرح جنوبی یورپ کے کسی شہر میں چھٹیاں گزارنے کی منصوبہ بندی نہیں کروں گی۔‘

یہ امید بھی کی جاتی ہے کہ گرمیوں کے مہینوں میں زیادہ درجہ حرارت سیاحوں کو روایتی مقامات سے ہٹ کر کچھ اور سوچنے پر آمادہ کرے گا۔ 2024 کی میک کنزی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ 80 فیصد سیاح صرف دنیا کے 10 فیصد سیاحتی مقامات پر جاتے ہیں۔ یہ شعور بڑھ رہا ہے کہ سیاحوں کے اس قدر زیادہ دباؤ سے بنیادی ڈھانچے کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ قدرتی اور ثقافتی مقامات کو نقصان پہنچتا ہے اور مقامی رہائشیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جنوبی یورپ کی تپتی ہوئی روایتی چھٹیاں شاید برطانیہ اور آئرلینڈ کے لوگوں کی پسندیدہ روایت اور پختہ عادت ہو لیکن بس ایک بار شدید گرمی میں چھٹیاں گزارنے کا تجربہ ہو جائے، تو سیاح اپنا ارادہ بدل لیتے ہیں۔ میرے دوست کولم، جو آن لائن تعلیم کے شعبے میں کام کرتے ہیں، ہر سال جولائی میں ڈبلن اور پیرس کے دوستوں کے لیے ایسی چھٹیوں کی منصوبہ کرتے ہیں جس میں سائیکل چلائی جاتی ہے۔

’10 سال قبل میں ہسپانوی جزیروں لانزاروت یا مالورکا پر دھوپ سے بھرپور سائیکلنگ ٹرپ بک کرایا کرتا تھا ۔ ایک سال اتنی زیادہ گرمی تھی کہ ہمیں دن کے واحد قابل برداشت سائیکلنگ کے اوقات سے فائدہ اٹھانے کے لیے صبح پانچ بجے روانہ ہونا پڑتا تھا۔ ہم نے اس سے سبق سیکھا، اور اب ہم نسبتاً ٹھنڈے اور کم رش والے شمالی یورپ کے مقامات کا انتخاب کرتے ہیں، مثال کے طور پر ہالینڈ یا سوئٹزرلینڈ۔ اس سال ہم لیک لوسرن کے گرد روٹ 1291 پر سائیکل چلائیں گے۔ ہلکی پھوار شدید گرمی میں سائیکلنگ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔‘

حقیقت میں حال ہی میں ٹریول انشورنس کمپنی سٹے شور کی جانب سے کرائے گئے جائزے سے معلوم ہوا کہ 88 فیصد برطانوی سیاح  موسم گرما کی چھٹیاں گزارنے کے لیے مقامات تبدیل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ اس کی وجوہات میں زیادہ اخراجات (32 فیصد)، سیاحوں کی بڑی تعداد (23 فیصد)، اور 22 فیصد نے ’بہت زیادہ درجہ حرارت‘ کو بھی بڑا مسئلہ قرار دیا۔

سیاحت کی صنعت بھی اس تبدیلی کا جواب دے رہی ہے۔ روبینہ فروسینی جو ایبرکرومبی اینڈ کینٹ میں یورپی پروڈکٹ منیجر ہیں، کہتی ہیں کہ ’ہم جو سب سے بڑا رجحان دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مہمان اب زیادہ سے زیادہ گرمیوں میں ٹھنڈے موسم والے مقامات کا انتخاب کر رہے ہیں اور شدید گرمی سے بچ رہے ہیں۔ سیاح اب یورپ کے کم معروف علاقوں، جیسے سلووینیا، آزورز، اور پرتگال اور سپین کے نسبتاً غیر معروف ساحلی علاقوں میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ اسی طرح درمیانے یورپی موسم میں سفر کرنے کا رجحان بھی دوبارہ بڑھ رہا ہے۔ الپائن علاقوں میں موسم بہار کے جنگلی پھولوں کے درمیان ہائیکنگ، ٹسکنی اور بورڈو میں خزاں میں انگور کے باغات کی سیر اور سردیوں میں کرسمس مارکیٹ دیکھنے کے لیے سفر۔‘

اس موسم گرما میں آئرلینڈ، ناروے اور سوئٹزرلینڈ جیسے مقامات پر سیاحوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ میری دوست کلوئی، جو پبلک ہیلتھ کے شعبے میں کام کرتی ہے، اس اگست میں اپنے دو چھوٹے بیٹوں کو ویسٹ کارک لے جا رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ سال ہم کوت داذور گئے، اور میرے ذہن میں یہ خوشگوار تصور تھا کہ میں وائن سے لطف اندوز ہوں گی اور بچے خوشی سے باہر کھیلیں گے۔ لیکن گرمی اتنی زیادہ تھی کہ ہمیں دوپہر کے وقت اپنے چھوٹے سے چھٹیوں کے فلیٹ میں رہنا پڑا۔ ایئرکنڈیشنر تیز کرنا پڑا اور بچوں کو بہت زیادہ نیٹ فلکس دیکھنے دینا پڑا۔‘

’چھٹیوں کے دوران ہر صبح یہ پوچھنے کی بجائے کہ آج کیا کرنے کو دل چاہتا ہے، یہ سوچنا پڑتا تھا کہ اس گرمی میں کیا برداشت کر سکتے ہیں؟‘

یہ موقع میں نے ہاتھ سے جانے نہیں دیا کہ کلوئی کو بتاؤں کہ کوت داذور کو اصل میں صرف ’سردیوں‘ کی چھٹیاں گزارنے کی جگہ کے طور پر متعارف کرایا گیا اور کوئی بھی سمجھدار سیاح اگست میں وہاں جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وِکٹورین دور کے آخر میں مینٹون، کان، سینٹ ٹروپیز اور نیس جیسے تفریحی مقامات ان لوگوں کے لیے پھلے پھولے جو لندن اور نیو یارک جیسے شہروں کے سرد اور نم موسم سرما سے بچنا چاہتے تھے۔ عموماً امیر اور وہ افراد جنہیں اپنی صحت کی فکر زیادہ رہتی تھی۔ ریو یرا کے روائتی سفری پوسٹروں میں خوبصورت، نازک اندام خواتین فرکوٹ میں ملبوس اور سپا کے گرم پانی کے ساتھ دکھائی جاتی تھیں جس میں سے بھاپ اٹھ رہی ہوتی تھی۔

جب ایف سکاٹ فٹزجیرالڈ 1920 کی دہائی میں جولائی کے مہینے میں کان آئے، تو اس کی وجہ آف سیزن کے کم نرخوں کا فائدہ اٹھانا تھا۔ انہوں نے لکھا کہ مقامی لوگ اس بات پر ان کے خاندان کو ’پاگل‘ سمجھتے تھے کہ وہ جولائی میں بحیرہ روم آئے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی بحیرہ روم کے تفریحی مقامات نے نوجوان اور کم مراعات یافتہ سیاحوں پر توجہ دینا شروع کیا۔ ان لوگوں کو جو دھوپ اور سمندر کی تلاش میں آتے تھے اور جن کا انحصار سکول کی چھٹیوں پر بڑھتا جا رہا تھا۔ تب ہی موسموں کی ترتیب بدل گئی۔

مجھے بحیرہ روم کے دلدادہ لوگوں کو سیاحت کی اس تاریخ سے چڑانے میں خاص مزہ آتا ہے، کیوں کہ یہ ثابت کرتی ہے کہ سیاحت کے رجحانات ہماری سوچ سے کہیں زیادہ بدل جانے والے ہیں۔ اس سے یہ امید بھی ہوتی ہے کہ چھٹیوں کے حوالے سے ہماری عادات بدل سکتی ہیں۔ اگر 2025 کی گرمیوں میں بحیرہ روم کے مقامات ہمارے لیے بہت گرم ہو جائیں، تو یاد رکھیں کہ 1925 میں بھی لوگ ہمارے جیسا ہی سوچتے تھے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ