برطانیہ یورپی یونین معاہدہ، عام لوگوں پر کیا اثر پڑے گا؟

تارکین وطن کی آمد برطانوی سیاست میں ایک اہم مسئلہ ہے جس کی بنیاد پر دائیں بازو کی قوتوں کو بہت مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔

19 مئی 2025 کو لندن میں بریگزٹ مخالف مظاہرین اسٹیو برے اور ساتھی یورپی یونین کے حامی کارکن جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے یورپی یونین کے سربراہوں کی میزبانی کرتے ہوئے یورپی رہنماؤں کے ساتھ معاہدہ کیا ہے (اے ایف پی)

پیر کو برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والے معاہدے پر کئی حلقے خوش ہیں تو کئی ناراض۔

اس معاہدے کے بعد جہاں برطانوی شہریوں کو کئی یورپی ممالک کے ہوائی اڈوں پر لمبی قطاروں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، وہیں اس کے طالب علموں اور نوجوانوں کو مختلف مواقع فراہم ہوں گے جبکہ برطانیہ کی زراعت اور دوسرے شعبوں کو بھی ممکنہ طور پر فائدہ ہوگا۔

یورپی یونین نے حال ہی میں 150 ارب یورو کا ایک فنڈ قائم کیا ہے، جس کا مقصد یورپی ممالک کی سکیورٹی کو مستحکم کرنا ہے کیونکہ برطانیہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت میں نہ صرف یورپ کا ایک بڑا کھلاڑی ہے بلکہ وہ دنیا میں بھی بڑے ہتھیاروں کے بیوپاریوں میں شامل ہے۔

توقع ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں برطانیہ کو بھی ہتھیاروں کی تیاری کے ٹھیکے ملیں گے، جس سے اس شعبے میں کام کرنے والے مزدوروں اور عام ملازمین کو فائدہ ہو گا اور ممکنہ طور پر اس شعبے میں مزید روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے، جس میں پہلے ہی ایک لاکھ 64 ہزار کے قریب ملازمین کام کر رہے ہیں۔

جب برطانیہ نے یورپی یونین کو خیرباد کہا تھا تو اس کی معیشت کو کافی نقصان پہنچا۔

یورپی ممالک کی کئی مارکیٹیں اس کے لیے مشکل بن گئیں، جس سے برطانوی برآمدات کو نقصان ہوا۔

ماہرینِ معیشت کے مطابق اگر برطانیہ یورپی یونین سے نہ نکلتا تو اس کی جی ڈی پی آج چار فیصد زیادہ ہوتی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک فیصد جی ڈی پی میں کمی کی وجہ سے برطانیہ کو 25 ارب پاؤنڈز کا نقصان ہوا ہے۔ یوں چار فیصد کی یہ کمی برطانوی جی ڈی پی کے لیے 100 ارب پاؤنڈ کا نقصان لے کر آئی۔ تاہم اس معاہدے کے بعد اس نقصان کا ازالہ ممکن ہے، جس سے روزگار کے نئے مواقع کھلیں گے۔

برطانیہ سمیت پورے یورپ میں دائیں بازو کی سیاسی قوتیں اور دائیں بازوں کی انتہائی سیاسی قوتیں دن بدن مقبول ہوتی جا رہی ہیں۔ کئی سیاسی ماہرین کے خیال میں ان کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی ممالک میں مینوفیکچرنگ سیکٹر گذشتہ کچھ دہائیوں میں سکڑا ہے، جس سے سفید فام مزدوروں میں بےروزگاری بھی پھیلی ہے اور ان کے دلوں میں تارکین وطن کے خلاف نفرت بھی بڑھی ہے۔

برطانیہ میں بھی مینوفیکچرنگ کے کئی شعبوں میں 70 کی دہائی سے اب تک اچھی خاصی کمی آئی۔ مثال کے طور پر 1970 میں یہ شعبہ جی ڈی پی کا 31 فیصد تھا اور اب یہ 10 فیصد کے قریب ہے۔

تاہم ہتھیار اور کچھ شعبے ایسے ہیں جس میں اب بھی برطانیہ اچھی خاصی مینوفیکچرنگ کرتا ہے۔ اس کی برٹش ایروناٹیکل انجینیئرنگ کمپنی اور دوسری ہتھیار ساز کمپنیاں عالمی معیار کے ہتھیار بناتی ہیں جو دنیا میں مختلف جنگوں میں استعمال ہوئے ہیں۔

برطانیہ نے حال ہی میں اپنے دفاعی بجٹ میں بھی اضافہ کیا ہے جبکہ یورپی یونین کے کئی ممالک خصوصاً جرمنی، پولینڈ اور فرانس کے دفاعی بجٹ میں بھی زبردست اضافہ دیکھا گیا ہے۔

یہ اضافہ روس کی طرف سے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت وہ یورپ کو کوئی خاص اہمیت نہیں دے رہے اور واشنگٹن سے ملنے والے اشارے اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ اب یورپ کو اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے خود کچھ کرنا پڑے گا۔

اپنی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے یورپ نے بڑے پیمانے پہ ہتھیار بنانے شروع کیے ہیں اور یورپی ممالک اپنی فوجوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں یہ ایک 150 ارب یورو کے دفاعی اخراجات کے پیکج کا اعلان کیا گیا تھا۔

کیونکہ برطانیہ کی برٹش ایروناٹیکل انجینیئرنگ اور دوسری کمپنیاں ہتھیار بنانے میں کمال کی مہارت حاصل رکھتی ہیں اس لیے یورپی یونین اور برطانیہ کے اس معاہدے کی وجہ سے اس کو اچھے خاصے ٹھیکے مل جائیں گے، جس سے برطانوی معیشت میں صنعت کے شعبے کو زبردست فروغ مل سکتا ہے اور اس سے لاکھوں مزدور گھرانوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

برطانیہ کی لیبر پارٹی کا انحصار معاشرے کے دوسرے طبقات کے علاوہ ٹریڈ یونینز پر بھی بہت ہے، جو لیبر پارٹی کی فنڈنگ میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔

خیال کیا جا رہا ہے کہ اس ڈیل سے مزدور طبقے میں لیبر پارٹی کے خلاف جو بےچینی پائی جاتی تھی وہ کسی حد تک کم ہو جائے گی کیونکہ اس سے ان کو روزگار ملے گا اور خوش حالی کے راستے کھلیں گے۔

صنعت کے علاوہ زراعت کو بھی فروغ ملنے کے مواقع فراہم ہوں گے کیونکہ اب برطانوی کسانوں کی پیداوار کو یورپی افسر شاہی کی طرف سے کاغذات کے انبار کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

اس معاہدے سے پہلے برطانوی ایکسپورٹرز کو کاغذات اور سرٹیفیکیٹس کی ایک طویل فہرست تیار کرنی پڑتی تھی، جس کی کئی کاپیاں بھی کرانی پڑتی تھیں جس کی وجہ سے ان کی پیداوار یورپی مارکیٹ میں کافی تاخیر سے پہنچتی تھی۔

تاہم نئے معاہدے میں کئی ایسی شرائط کو ختم کر دیا گیا ہے جس کی بنیاد پر ایکسپورٹرز کو بہت سارے کاغذات تیار کرنے پڑتے تھے، جس سے ان کی پیداوار یورپی یونین کی مارکیٹوں میں بروقت پہنچ جائے گی اور ان کو مالی طور پر کافی فائدہ ہو گا۔

کرونا کے بعد سے برطانیہ میں مہنگائی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ کئی ماہرین یورپی یونین سے نکلنا بھی اس مہنگائی کی وجوہات میں سے ایک وجہ بتاتے ہیں۔

اب ماہرین کا خیال ہے کہ اس معاہدے کے بعد یورپی اشیا کی کافی مقدار میں برطانوی مارکیٹ میں دستیابی مہنگائی کو کم کرنے میں معاون ہو سکتی ہے، جس سے عام برطانوی شہری کو فائدہ ہو گا۔

تاہم برطانوی مچھیرے یا فشر مین اس ڈیل پر خوش نہیں ہیں ان کی یہ امید تھی کہ ایک سال کے اندر اس اجازت نامے کو ختم کر دیا جائے گا جس کے تحت یورپ کے مچھیرے برطانیہ کی آبی حدود میں مچھلیاں پکڑتے تھے لیکن موجودہ معاہدے نے اس اجازت نامے میں 12 سال کی توسیع کر دی ہے، جس پر برطانوی مچھیروں کو شدید تشویش ہے۔

طالب علموں اور نوجوانوں کے تبادلوں کے حوالے سے بھی کچھ حلقے خوش نہیں ہیں کیونکہ ممکنہ طور پہ برطانوی طالب علم یورپ کی نسبتاً سستی جامعات میں جا سکتے ہیں جہاں پر کورسز برطانیہ کے مقابلے میں یا تو سستے ہیں یا کچھ جگہوں پر بالکل مفت ہیں۔

برطانیہ کو امید ہے کہ اس معاہدے کے بعد ای یو تارکین وطن کی ہجرت کے حوالے سے بروقت ڈیٹا برطانیہ کے ساتھ شیئر کر سکے گا، جس کی بنیاد پر وہ چھوٹی کشتیوں میں آنے والے تارکین وطن کو روکنے میں کسی حد تک کامیاب ہو گا۔

تارکین وطن کی آمد برطانوی سیاست میں ایک اہم مسئلہ ہے جس کی بنیاد پر دائیں بازو کی قوتوں کو بہت مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ اس لیے برطانوی حکومت سمجھتی ہے کہ اس معاہدے کے بعد وہ تارکین وطن کی آمد کے مسئلے کو کنٹرول کر کے اپنی سیاسی مخالفین کی مقبولیت کو کم کر سکے گی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر