برطانیہ کا پاکستان سمیت کئی ملکوں کے طلبہ ویزے محدود کرنے پر غور

برطانیہ ان ممالک کے طلبہ پر پابندی لگا سکتا ہے جن کا سیاسی پناہ کا دعویٰ کرنے کا زیادہ امکان ہے۔

21 مارچ 2025 کو ہیتھرو ہوائی اڈے پر مسافر اپنے سوٹ کیسوں کے ساتھ روانہ ہو رہے ہیں (بینجمن کریمیل/ اے ایف پی)

برطانیہ کی حکومت ایسے ممالک کے طلبہ پر ویزے کی پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہی ہے جن کے شہری برطانیہ پہنچ کر پناہ کی درخواست دینے کے امکانات رکھتے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد ملک میں نیٹ مائیگریشن یعنی خالص امیگریشن کی تعداد میں کمی لانا ہے۔

برطانوی وزارت داخلہ کے ایک اہلکار کے مطابق یہ فیصلہ آئندہ ہفتے متوقع اس ’امیگریشن وائٹ پیپر‘ کا حصہ ہو گا، جس میں حکومت کی جانب سے امیگریشن کے مکمل پلان کی تفصیلات دی جائیں گی۔

یہ فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب وزیر اعظم کیئر سٹارمر کی لیبر پارٹی کو گذشتہ ہفتے انگلینڈ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں عوامی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا، جہاں ووٹرز نے خاص طور پر غیر قانونی امیگریشن پر برہمی کا اظہار کیا۔

وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا ’ہماری آنے والی امیگریشن وائٹ پیپر میں امیگریشن کے بگڑے ہوئے نظام کو درست کرنے کے لیے مکمل حکمت عملی دی جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے کہ قانونی امیگریشن کا موضوع برطانیہ کی سیاست میں ایک عرصے سے مرکزی حیثیت رکھتا رہا ہے اور 2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم کے لیے ایک بڑی وجہ بھی یہی مسئلہ تھا۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سال برطانیہ میں ایک لاکھ آٹھ ہزار (108,000) افراد نے پناہ کی درخواست دی، جن میں سے سولہ ہزار (16,000) ایسے افراد تھے جو پہلے طالب علم ویزا پر برطانیہ آئے تھے۔

اگرچہ حکومت ان افراد کی قومیت ظاہر نہیں کرتی جنہوں نے طالب علم ویزے پر آنے کے بعد سیاسی پناہ کی درخواست دی، لیکن حکام کے مطابق پاکستان، نائجیریا اور سری لنکا کے شہریوں میں ایسا رجحان سب سے زیادہ ہے۔

لیبر پارٹی کو حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جو دھچکہ لگا ہے، اس کے بعد بعض پارٹی رہنماؤں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ نیٹ مائیگریشن کم کرنے کے لیے زیادہ سخت اور واضح اقدامات کرے۔

’ریڈ وال‘ کہلانے والے حلقوں سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمنٹ جو وائٹ نے کہا ہے کہ ’حکومت کو اب ہچکچاہٹ چھوڑنی ہو گی اور دو ٹوک فیصلے کرنے ہوں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ