جامعات میں پروفیسروں کے تین بنیادی کام ہوتے ہیں۔ تدریس، تحقیق اور تحقیق کرنے والے طالب علموں کے کام کی نگرانی کرنا۔ ہم جن طالب علموں کو سوپروائز کرتے ہیں ان سے ہمارا کئی سالوں تک رابطہ رہتا ہے۔ اس دوران ان کا ہم سے تعلق اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ ہم سے ہر طرح کا سوال بلا جھجھک پوچھ لیتے ہیں۔
میں پچھلے سال سے ایک ماسٹرز کی طالبہ کی تحقیق میں رہنمائی کر رہی ہوں۔ اس عرصے میں اس نے کئی بار مجھ سے یہ سوال کیا کہ کیا وہ تحقیق میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کر سکتی ہے۔
میں پہلے پہل اسے کوئی واضح جواب دینے سے ہچکچائی۔ تعلیمی دنیا بالخصوص اعلیٰ تعلیم میں مصنوعی ذہانت کا استعمال اب بھی ایک متنازع موضوع ہے۔ کچھ لوگ اس کے حق میں ہیں تو کچھ اس کے شدید مخالف ہیں۔ لیکن اس کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اب اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں اس کے ساتھ رہتے ہوئے اس کے ساتھ کام کرنے کا سلیقہ سیکھنا ہے۔
میں اپنے روزمرہ کے کئی کام مصنوعی ذہانت کی مدد سے انجام دیتی ہوں۔ میں جنریٹو اے آئی سے اپنی ای میلز لکھواتی ہوں، ترجمہ کرواتی ہوں، لیکچر پلان کرواتی ہوں اور بعض اوقات اپنے ذاتی مسائل کو بہتر انداز میں سمجھنے میں بھی اس کی مدد لیتی ہوں۔
ایک دن میں نے اسے بھی مصنوعی ذہانت کے چند ایسے ٹولز کے بارے میں بتایا جن کا استعمال کرکے وہ اپنی تحقیق کے عمل کو بہتر اور آسان بنا سکتی تھی۔ میں نے ساتھ ہی ساتھ اسے یہ بھی واضح کیا کہ وہ ٹولز اس کی ہدایات کے مطابق کام کریں گے لیکن اس کا کام خود سے نہیں کر سکتے۔ اسے اپنی تحقیق کے ہر مرحلے میں زیادہ تر کام اپنے دماغ سے ہی لینا ہو گا۔
تحقیق میں اخلاقیات اور دیانت داری کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے۔ دنیا کی بڑی جامعات اور اکیڈیمک جرنلز اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ محققین واضح کریں کہ انہوں نے اپنے کام میں کہاں، کب اور کیسے مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا۔ اگر ایک محقق دیانتداری سے اس کا ذکر کرے اور مصنوعی ذہانت کو تحقیق کی معاونت کے طور پر استعمال کرے تو اس کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
دنیا کے کئی تعلیمی ادارے جیسے کہ ہارورڈ، آکسفورڈ، سٹینفورڈ مصنوعی ذہانت سے متعلق اپنی پالیسیاں واضح کر چکے ہیں۔ بہت سے ادارے مصنوعی ذہانت کے مفید استعمال کے حوالے سے کورسز بھی متعارف کروا چکے ہیں۔
پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی جامعات کو ہدایت دی ہے کہ وہ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ پروگراموں میں مصنوعی ذہانت سے متعلق کورسز متعارف کروائیں۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ مگر بات صرف پالیسی بنانے کی نہیں، اس پر عمل درآمد کی ہے۔ ہر پالیسی کا نتیجہ اس پر منحصر ہوتا ہے کہ اسے نافذ کرنے والے افراد کا رویہ کیا ہے۔ اگر ان کا رویہ منفی ہو یا وہ اس تبدیلی سے خائف ہوں تو اس پالیسی کے مثبت اثرات دیکھنے کو نہیں ملتے۔
ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جو کسی نئی جدت کے آنے پر نہ صرف اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں بلکہ اس کا استعمال کرنے والوں کا مذاق بھی اُڑاتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جب وہی جدت عام ہو جاتی ہے تو وہی لوگ اس جدت پر اپنا کنٹرول جما لیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مصنوعی ذہانت کے حوالے سے بھی رویہ کچھ مختلف نہیں۔ جو اساتذہ آج اس کا مذاق اڑا رہے ہیں، کل یہی لوگ ان کورسز کے متعارف ہونے کے بعد بھرپور کوشش کریں گے کہ جامعات انہیں ہی یہ کورسز پڑھانے کا موقع دیں۔
اس تعلیمی سیاست کو ایک طرف رکھتے ہوئے اصل مدعے پر آتے ہیں۔ کیا مصنوعی ذہانت مفید ہے؟ جی ہاں۔ کیا اسے بطور مضمون پڑھانا چاہیے؟ بالکل۔ کیا اس کے استعمال کے حوالے سے واضح پالیسیاں بننی چاہیے؟ بالکل۔ کیا س کے استعمال کی ترغیب دینی چاہیے؟ جی ہاں لیکن ایک فکری ماحول میں۔
ہمیں طلبہ کو بتانا چاہیے کہ وہ اپنے کام میں مصنوعی ذہانت کا استعمال کیسے کر سکتے ہیں۔ یہ ان کی کہاں تک مدد کر سکتا ہے اور کہاں انہیں خود سوچنا، سمجھنا اور فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جامعات ایک ایسا فکری اور تدریسی ماحول قائم کریں جہاں تنقیدی سوچ کو فروغ ملے، مشاہدہ اور تجزیہ اہم ہو اور محض ٹیکنالوجی پر انحصار نہ ہو۔
اس کے علاوہ یہ بھی بہت ضروری ہے کہ اگر طلبہ نے کسی تحریر میں اے آئی استعمال کی ہے تو اس کا باقاعدہ حوالہ موجود ہو کہ کہاں اور کیسے مدد لی گئی۔
ساتھ ہی ساتھ جامعات کو فوری طور پر اپنی مصنوعی ذہانت کے استعمال کے حوالے سے پالیسیاں بھی وضع کرنی چاہییں تاکہ اساتذہ اور طلبہ ایک واضح رہنمائی کے ساتھ اس کا استعمال کر سکیں۔ جامعات کو اپنے تدریسی اور امتحانی نظام میں بھی بنیادی تبدیلیاں لانی چاہیے۔ ایسی اسائنمنٹس دینی چاہیے جو صرف مصنوعی ذہانت سے حل نہ ہوں بلکہ انہیں حل کرنے کے لیے طلبہ کو اپنے دماغ کا استعمال کرنا پڑے۔
اسی طرح ہم طلبہ کو یہ سکھا سکتے ہیں کہ وہ مصنوعی ذہانت کے تابع نہیں ہیں بلکہ اسے اپنے قابو میں لا کر اپنے علمی، تخلیقی اور پیشہ ورانہ فائدے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔