طورخم کا بدترین امیگریشن نظام: وسطی ایشیا کی راہ میں رکاوٹ

نسل در نسل یہ تاثر تقویت پاتا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ویزے اور پاسپورٹ کی شرائط میں نرمی برتی جائے گی۔

15 جنوری 2024 افغانستان اور پاکستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ کے قریب سڑک پر کھڑے سامان بردار ٹرک پاکستان میں داخل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں (شفیع اللہ کاکڑ / اے ایف پی)

طورخم پر امیگریشن کا نظام اور طریقہ کار پاکستان افغانستان بھائی چارے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

پاکستان بننے کے بعد سے لے کر امریکہ میں نائن الیون کے واقعات کے باوجود 2016 تک پاکستان افغان عوام طورخم کے ذریعے آزادانہ نقل و حمل کرتے رہے۔ لہٰذا نسل در نسل یہ تاثر تقویت پاتا گیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ویزے اور پاسپورٹ کی شرائط میں نرمی برتی جائے گی۔

دونوں ممالک کے عوام بالخصوص قبائلی علاقوں کے افراد دو طرفہ آمد و رفت کے اس نظام سے مطمئن اور خوش تھے کیونکہ سماجی اور معاشی تعلقات قائم رکھنے میں سہولت تھی۔

نائن الیون اور پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کے بعد پاکستان افغان سرحد پر امیگریشن کے نظام کو بتدریج نافذ کیا گیا۔

یہ نظام ہے کیا؟

اسے سمجھنے کے لیے کسی مویشی منڈی کو ذہن میں لائیے۔ 

ایک دھول مٹی سے اٹا میدان، لوگوں کا بےہنگم اور حواس باختہ ہجوم، ایک تنگ و تاریک راہداری میں نصب سامان سکین کرنے والی مشین پر لوگوں کی دھکم پیل، امیگریشن کی کھڑکی تک پہنچنے کی جاں گسل جدوجہد، قطار توڑنے کی کوششیں، ایف آئی اے اور ایف سی اہلکاروں کی لاٹھیاں، قلیوں کا شور وغل، بیمار مسافروں کی آہ و بقا، ہٹو بچو کی چیخیں اور چلچلاتی دھوپ، اب اس سب پر ڈالیے دھونس کا تڑکا۔

جہاں جس اہلکار کا بس چلا مسافر کو روک کر جانچ پڑتال شروع کر دی اور اپنی مرضی کا جرمانہ بھی عائد کر دیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عذاب قبر سے لے کر روز حشر تک کے سفر کی تیاری کروائی جا رہی ہو۔

یہ ضرور مدنظر رکھیے کہ یہ منظر میرے دو تین مرتبہ کے سفر کا لب لباب ہے۔

اب اپنے تخیل میں ان مرد وزن کا تصور لائیے جو ہر ہفتے یا مہینے اس تلخ تجربے سے گزر رہے ہیں، کیا اب بھی آپ افغانوں میں پاکستان کے متعلق منفی سوچ کے بارے میں حیرت کا اظہار کریں گے۔

میں متفق ہوں کہ اس منفی سوچ کے کئی محرکات ہیں جن میں سے کئی بے بنیاد بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ امیگریشن کے مندرجہ بالا حالات میں سے گزرنے کے بعد منفی سوچ کو ہی تقویت ملے گی۔

یہ یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ طورخم پر ہونے والا نا گفتہ بہ سلوک ان افراد کے ساتھ ہو رہا ہے جن کے آبا و اجداد کی عزت نفس کے احترام میں انگریز سرکار کے افسران زمین پر بیٹھ کر گفت و شنید کرتے تھے۔

تاہم آج کے طورخم کے حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم نے افغانستان کے متعلق تاریخ کے اسباق اور اپنی قبائلی روایات کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے جن کا احترام انگریز سرکار نے بھی مقدم رکھا تھا۔

اسی طورخم کے ذریعے ہم افغانستان کے ساتھ اپنے معاشی اور سماجی تعلقات کو مضبوط تر کرنے کے داعی ہیں۔ اسی طورخم کے ذریعے ہم وسطی ایشیا کی ریاستوں سے تجارت کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اسی طورخم کے ذریعے ہم نے لاکھوں افغان مہاجرین کو افغانستان لوٹایا ہے۔

میں یہ کیسے مان لوں کہ ریاست پاکستان کے سپوت طورخم پر موجود امیگریشن کے نظام کو اسلام آباد ایئرپورٹ کے متوازی نہیں لا سکتے۔

کیا امیگریشن کمپاؤنڈ کے دشت و بیابان کو ایک جدید طرز کے مسافروں کے ٹرمینل میں تبدیل کرنا ہماری استطاعت سے باہر ہے؟ کیا سامان سکین کرنی والی مشین کی تعداد کو مسافروں کی تعداد کے مطابق بڑھانا ہمارے لیے پہاڑ اٹھانے کے مترادف ہے۔

کیا مسافروں کو مناسب سایہ دار اور ہوادار انتظار گاہ یا ہال مہیا کرنا پانی میں آگ لگانے کے برابر ہے؟ کیا خواتین کے لیے قبائلی روایات کے مطابق مناسب سہولیات فراہم کرنا غیر مناسب مطالبہ ہے، کیا ایف آئی اے اور ایف سی اہلکاروں کو پشتون قبائلی روایات کی حساسیت سمجھانا بہت مشکل کام ہے؟

اگر نہیں، تو ہم انتظار کس بات کا کر رہے ہیں اور حال پر اس قدر مطمئن کیوں ہیں؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغانستان کے ساتھ دو طرفہ معاشی اور سماجی تعلقات کے متعلق ہمارے پالیسی بیانات تو اپنی جگہ، زیادہ فکر انگیز وسطی ایشیا سے روابط کے وہ ارادے اور اقدامات ہیں جن کا اظہار ہمارے پالیسی ساز متواتر کر رہے ہیں۔ کیا ہم ان تمام عظیم منصوبوں کو طورخم کی بد انتظامی کی نظر ہونے دیں گے؟

یہاں یہ یادہانی بھی ضروری ہے کہ پاکستان نے ستمبر 2019 میں طورخم کو 24 گھنٹے فعال رکھنے کا دعویٰ کیا اور دسمبر 2022 میں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کارگو ٹرمینل کو فعال بنانے کا  فخریہ دعویٰ کیا تھا۔

اب وہی ریاست پاکستان ان ہزاروں لاکھوں جیتے جاگتے انسانوں کی عزت نفس سے بےنیاز ہو گئی ہے جن کی اکثریت متاثرین جنگ و جدل ہیں۔

آج ہم اپنے ہم نوالہ اور ہم پیالہ بھائیوں کی عزت سے اس قدر لاپروا کیسے ہو سکتے ہیں کہ امیگریشن اور ہراساں کرنے کا فرق بھول چکے ہوں؟

میری اپنے ہم وطنوں سے یہی گزارش ہے کہ اگرچہ سوشل میڈیا کے زہر اور مسائل کی افتاد نے ہماری یادداشتوں اور حساسیت کو کھوکھلا کر دیا ہے تاہم میر ی اس ہرزہ سرائی کی حقیقت سمجھنے کے لیے میرے قارئین زندگی میں ایک بار طورخم ضرور جائیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ ہماری لاپروائی کی وجہ سے کیسے وسطی ایشیا کا گیٹ ایک بند گلی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

میں نے طورخم پر کیا دیکھا؟

میں نے کئی مرتبہ افغانستان جانے کے لیے طورخم پار کرتے ہوئے اور واپسی پر محسوس کیا کہ ڈیوٹی پر مامور اہلکاروں کا رویہ مسافروں کے ساتھ بالکل بھی مناسب نہیں خواہ وہ افغان ہوں یا پاکستانی۔ جاتے ہوئے اہلکار سیدھا مسافروں کے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہیں کہ کتنے پیسے ساتھ لے جا رہے ہو؟

جیب میں ہاتھ ڈالنے سے یہ بہتر ہوتا ہے کہ مسافروں سے پوچھا جائے کہ آپ کے پاس کوئی غیر ملکی یا پاکستانی کرنسی ہے؟

جاتے اور واپس آتے ہوئے کچھ پیدل راستہ ہے۔ میں نے افغانستان سے آتے ہوئے پرانے چپل نکال کر شاپر میں ڈالے تھے اوربوٹ پہن لیے تھے تو ایک سکیورٹی اہلکار نے کہا کہ شاپر میں جوتے میرے نہیں۔

ان کا خیال تھا کہ شاید مجھے کسی افغان نے جوتے سمگل کرنے کے لیے دیے ہیں کہ پاکستان میں کسی کو پہنچانے ہیں۔

ایک دفعہ ایک دوسرے صاحب نے واپسی پر جیب میں ہاتھ ڈالا کہ شاید پیسے کچھ زیادہ ہیں۔ میں نے کہا اگر زیادہ ہیں تو پاکستان سے باہر تو نہیں جا رہا پاکستان آ رہا ہوں۔ پھر کہا کہ مجھے کسٹم افسر کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔

طورخم کی یہ حالت ہے اور سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ افسران آرام سے اپنے دفاتر اور کمروں میں موجود لیکن باہر اہلکاروں کے منفی رویے سے بےخبر ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ