قائداعظم دوسری بارجب 27 جولائی 1944 میں راولپنڈی آئے تو واحد غیر مسلم سردار آتما سنگھ تھے، جن کے وہ گھر گئے تھے۔
تحریک پاکستان کے نامور کارکن پروفیسرمنظورالحق صدیقی کی کتاب ’قائداعظم اور راولپنڈی‘ پہلی بار 1983 میں قومی ادارہ برائے تحقیق وثقافت کے زیرِاہتمام چھپی تھی۔ اس میں درج ہے کہ قائداعظم راولپنڈی میں چار مسلمان گھروں میں گئے تھے اور جس واحد غیر مسلم گھر میں وہ گئے، ان کا نام سردار آتما سنگھ تھا۔
راولپنڈی میں سب سے زیادہ توجہ سردار سجھان سنگھ فیملی کو ملی، جن کا خاندان کاروباری حوالوں سے نہایت اثرورسوخ کا حامل تھا۔ اس کے علاوہ کلرسیداں کے بابا کھیم سنگھ بیدی کے خاندان کو یاد کیا جاتا ہے مگر تاریخ میں راولپنڈی کے سردار آتما سنگھ کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں کہ وہ کون تھے اور قائداعظم ان کے گھر کیوں گئے تھے۔
آتما سنگھ کون تھے؟
پروفیسرمنظورالحق صدیقی لکھتے ہیں کہ ’سردار آتما سنگھ رئیسِ راولپنڈی عقیدتاً نامداری سکھ تھے۔ نامداری، سکھوں کے دسویں گرو گوبند سنگھ جی کو گرو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن آخری نہیں۔ ان کے نزدیک گرو بننے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
’سردارآتما سنگھ کے روحانی مرشد سری گرو پرتاب سنگھ جی متوطن بجینی صاحب ضلع گورداس پور تھے۔ مرشد کے ایما پرسردارآتما سنگھ نے ’آل انڈیا عبادت کانفرنس‘ کی بنیاد ڈالی۔ سردار موصوف نےاس جماعت کے لیے لاہور، راولپنڈی، جالندھر اور دہلی میں شاندار جلسے کروائے اور ان میں سے ہر جلسے پر لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ اپنے پاس سے صرف کیا۔
’سردار صاحب محرم اور عید میلاد النبی شاندار طریق سے مناتے اور ان موقعوں پر پانچ سے دس ہزار روپے تک خرچ کر دیتے۔ ان جلسوں میں پیر صاحب گولڑہ شریف سید غلام محی الدین عرف حضرت بابو جی مرحوم کو بھی بلاتے۔ تقریریں ہوتیں اور قوالی ہوتی۔ اس موقعے پر خود بھی تقریر کرتے۔ راولپنڈی میں مسلمان سیرت کا جلسہ کرتے تو انہیں بھی مدعو کرتے۔ یہ بلاتکلف جامع مسجد حنفیہ میں جا کر سیرت پر تقریر کیا کرتے تھے اور ایک چیک بھی دے آتے تھے جو بالعموم پانچ ہزار کا ہوتا۔
’سید پوری روڈ پر رہا کرتے تھے۔ ان کے کاروباری ادارے کا نام ’کے ڈی بوٹا سنگھ اینڈ کو‘ تھا۔ جہاں اب انبالہ دری ہاؤس ہے وہاں سرائے بوٹا سنگھ تھی۔ قائداعظم سری نگر میں تھے کہ سردار آتما سنگھ نے انہیں ایک تعزیتی خط لکھا، جس میں انہوں نے نواب بہادر یار جنگ کی وفات پر ان سے اظہارِ تعزیت کیا تھا، جس پر قائداعظم نے جوابی خط میں ان کا شکریہ ادا کیا تھا۔‘
قائداعظم کی آمد اور محفل قوالی میں شرکت
پروفیسر منظور الحق صدیقی لکھتے ہیں ’قائداعظم جب سردار آتما سنگھ کے گھر پہنچے تو وہاں انہوں نے سو کے قریب معززینِ شہر کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔ شامیانوں کے نیچے دریاں اور قالینوں کے نیچے چاندنیاں بچھائی گئی تھیں۔ تمام مہمان دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے۔ قائداعظم شیروانی پہنے وہاں پہنچے اور سب کے ساتھ فرش پر بیٹھ گئے۔ اس موقعے پر مختصر سا پروگرام بھی تھا۔ پیر صاحب گولڑہ شریف کے قوال محبوب نے چند منٹ قوالی بھی کی۔ بعد ازاں چائے پلائی گئی۔ قائداعظم نے چائے کے چند گھونٹ لیے۔ کھایا کچھ نہیں۔ انہوں نے وہاں زیادہ سے زیادہ 15 منٹ گزارے۔‘
قائداعظم سردار آتما سنگھ کے گھر کیوں گئے؟
دراصل اس دور تک ابھی واضح نہیں تھا کہ اگر تقسیم ہوتی ہے تو سکھ کس کے ساتھ جائیں گے۔ قائداعظم ہمیشہ اپنی تقریروں میں اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ پاکستان کا جواز پیش کرتے تھے۔ اس لیے راولپنڈی میں سرادر آتما سنگھ کی دعوت قبول کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی جبکہ دوسری بڑی وجہ مسلم لیگی رہنما سید مصطفیٰ شاہ خالد گیلانی تھے، جو مسلم لیگ راولپنڈی کے آنریری آرگنائزنگ سیکرٹری تھے اور انہوں نے ہی راولپنڈی میں قائداعظم کے تمام پروگرام ترتیب دیے تھے۔
سید مصطفیٰ شاہ خالد گیانی چونکہ سردار آتما سنگھ کی جماعت ’آل انڈیا عبادت کانفرنس‘ کے سیکرٹری بھی تھے، اس لیے انہوں نے قائداعظم کو سرادر آتما سنگھ کے گھر آنے پر راغب کیا تھا۔
راولپنڈی میں اس وقت زیادہ تر مسلمان اور غیر مسلم یونینسٹ پارٹی سے وابستہ تھے، جن کو مسلم لیگ کی جانب راغب کیا جانا مقصود تھا۔