قائد اعظم کے خلاف ’توہین آمیز تقریر‘ پر علی وزیر دوبارہ گرفتار

ضلع شمالی وزیرستان کے ڈی پی او سلیم ریاض نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما علی وزیر کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہیں منگل کو بنوں کی مقامی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

علی وزیر کو دو سال جیل کاٹنے کے بعد اس سال فروری میں کراچی کی جیل سے رہا کیا گیا تھا(ٹوئٹر علی وزیر)

شمالی وزیرستان کے پولیس سربراہ (ڈی پی او) سلیم ریاض نے رکن قومی اسمبلی اور قوم پرست تنظیم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما علی وزیر کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ میران شاہ پولیس کو دو مقدمات میں مطلوب تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں پولیس افسر کا کہنا تھا کہ علی وزیر کو میران شاہ میں دائر مقدمات کی بنیاد پر پیر کی صبح گرفتار کیا گیا اور انہیں منگل کو بنوں کی مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

علی وزیر  26 ماہ تک سندھ میں جیل کاٹنے کے بعد حال ہی میں رہا ہوئے تھے۔

ڈی پی او سلیم ریاض نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’علی وزیر کے خلاف فروری اور رواں ماہ ریاست، فوج، اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے خلاف ہتک آمیز، شرانگیز اور گستاخانہ الفاظ کے استعمال کے باعث مقدمات درج کیے گئے تھے۔‘

تفصیلات کے مطابق 20 دن قبل شمالی وزیرستان میں سیدگئی چیک پوسٹ کے داخلی راستے پر علی وزیر اور ان کے دیگر ساتھیوں کا سکیورٹی پر مامور فوجی اہلکاروں کے ساتھ تلخ کلامی کے تناظر میں پی ٹی ایم کے پانچ کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا، جن کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے پی ٹی ایم کے حامیوں نے  شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی میں ایک ہفتہ دھرنا دیا، جو بعدازاں میران شاہ کیمپ کے مرکزی گیٹ کے سامنے منتقل کر دیا گیا۔

آئی ایس آئی بنوں کے افسر کی سربراہی میں دھرنے کے 19ویں روز بعد پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے اہلکاروں نے مظاہرین سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا۔

دھرنے میں شریک پی ٹی ایم کے حامی اور شمالی وزیرستان کے سابق رکن صوبائی اسمبلی میر کلام وزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو  بتایا کہ مذاکرات کے نتیجے میں دھرنا ختم کرنے اور گرفتار افراد کی رہائی پر اتفاق ہو چکا تھا۔

’تاہم مذاکرات اس وقت ناکامی کا شکار ہوئے جب اتوار کو علی وزیر، جو دھرنے میں روزانہ حاضری دیتے رہے تھے، نے تقریر کے دوران محمد علی جناح کے حوالے سے نفرت آمیز الفاظ استعمال کیے، جس کا ویڈیو ثبوت موجود ہے۔ پیر کی صبح علی وزیر قومی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں شرکت کی غرض سے رزمک سے اسلام آباد جارہے تھے، جب پولیس نے ناکہ بندی پر انہیں گرفتار کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ دو روز قبل علی وزیر، منظور پشتین اور ان کے ایک ساتھی گِلہ مند پشتون کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ پشاور نے بھی ایک کیس بنایا تھا، جس میں انہوں نے 23 جون کو پیش ہونا ہے۔ 

میرکلام وزیر کا کہنا تھا: ’میں خود پی ٹی ایم کا حامی ہوں، کیونکہ میرا ماننا ہے کہ پشتونوں کے تمام مسائل حکومت اور اداروں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے لیکن میں اس بات کا قطعاً حامی نہیں کہ ریاست، فوج یا ملک کے لیڈروں کے خلاف غلط زبان استعمال کی جائے۔ اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ بڑھتے جائیں گے۔

’ایک ہزار سے زیادہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوئے ہوں گے، لیکن کسی ایک کے ملزمان کو پکٹا نہیں جا سکا۔  گذشتہ سال اسی دن 19 جون کو  یوتھ آف وزیرستان تنظیم کے چار جوانوں کو ایک ساتھ نامعلوم افراد نے ایک دعوت سے واپسی کے موقع پر فائرنگ کرکے قتل کردیا۔‘

شمالی وزیرستان سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے  پیر کو قومی اسمبلی  سے خطاب میں کہا کہ علی وزیر کی گرفتاری کے حوالے سے ایم این اے کی گرفتاری کے لیے قانون میں درج طریقہ کار کو نہیں اپنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’اسی حکومت میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا کہ اگر سیشن کے دوران کسی رکن کی گرفتاری مقصود ہو تو اس کے لیے سپیکر سے اجازت طلب کی جائے گی، جبکہ پروڈکشن آرڈر بھی ازخود جاری ہو جائے گا۔ ’تاہم ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ سیشن ابھی جاری ہے، اور سپیکر کی اجازت کے بغیر ایک رکن قومی اسمبلی کی گرفتاری ہو گئی۔ لہذا ہم اسے گرفتاری کے بجائے اغوا کہیں گے۔‘

ابتدائی طور پر علی وزیر کے ڈرائیور اور ان کے ساتھیوں نے گرفتاری کا الزام سکیورٹی اداروں پر عائد کیا، تاہم پولیس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ زیر حراست ایم این اے میران شاہ  پولیس کے پاس ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان