گلگت بلتستان کے علاقے غذر میں گلیشیئر پھٹنے سے متعدد دیہات زیر آب آ گئے جبکہ حکام نے 50 سے زائد افراد کو ریسکیو کر لیا۔
گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے جمعے کو ایک بیان میں بتایا کہ غذر گوپس کے علاقے میں تلی داس کے مقام پر ایک گلیشیئر پھٹ گیا، جس سے ’دریا کا بہاؤ رک گیا اور پانی ایک جھیل کی صورت اختیار کر گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترجمان نے مزید بتایا کہ گلیشیئر پھٹنے سے پھنسے 50 سے زائد افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے اور مزید امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہار اللہ کے مطابق گلگلت بلتستان کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ نے بتایا ہے کہ سیلاب نے پورے علاقے کو لپیٹ میں لے لیا ہے اور ریسکیو آپریشن کا آغاز کردیا گیا ہے۔
ایمان شاہ نے بتایا کہ ’گلیشئر پھٹنے کی وجہ سے عارضی جھیل بن گیا ہے اور اسی جھیل کے پھٹنے کے خطرے کے پیش نظر نشیبی علاقوں سے لوگوں کو منتقل کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے لوگوں کو نکالنے کا عمل جاری ہے۔‘
وزیر اعلٰی گلگلت بلتستان حاجی گلبر خان کی دفتر سے جاری بیان کے مطابق متعلقہ حکام کو فوری ریسکیو آپریشن شروع کرنے کا بتایا گیا ہے جبکہ آپریشن میں پاکستان فوج سے بھی مدد طلب کی جائے گی۔
آئی ای ای ای جریدے میں 2023 میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق غذر میں گذشتہ 200 سالوں میں گلیشئر پھٹنے کے 24 واقعات سامنے آئے ہیں۔
اسی مقالے کے مطابق ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں 54 ہزار کے قریب گلیشیئرز موجود ہیں جس میں پانچ ہزار صرف گلگلت بلتستان میں ہے۔
گلیشیائی جھیلوں کے باری میں مقالے میں لکھا گیا ہے کہ غذر خصوصی طور پر گلیشئائی جھیلوں سے خطرے سے دوچار ہے اور غذر میں تقریباً 617 گلیشیائی جھیلیں ہیں۔
گوپس علاقہ، جہاں پر ابھی گلیشئر پھٹنے کا واقعہ سامنے آیا ہے، یہاں اس سے پہلے بھی گلیشیئر پھٹنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
اسی مقالے کے مطابق گوپس کے مقام پر 1980,1999,2005,2013 اور 2018 میں مختلف علاقوں میں گلیشیئر پھٹنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں جس سے کمیونٹی کو نقصان پہنچا ہے۔
گلیشیئر پھٹنے سے جھیل کیسے بنی؟
گذشتہ رات گلیشیئر پھٹنے سے تالی داس نالی میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی جس سے دریائے گلگلت کا بہاؤ بلاک ہوا ہے اور اسی سے عارضی جھیل بن گیا ہے۔
عارضی جھیل کی ایک مثال ہنزہ میں عطاآباد جھیل جو 2010 میں شدید لینڈ سلائڈنگ ہونے سے بنا گیا کیونکہ ملبے سے دریائے ہنزہ بلاک ہوا تھا اور جھیل بن گیا تھا۔
گلگلت بلتستان کے ریسکیو 1122 کے ضلعی ایمرجنسی افیسر انجینئر طاہر شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا گلیشیئر پھٹنے کے بعد چھ کلومیٹر تک عارضی جھیل بن گیا ہے۔
طاہر شاہ نے بتایا کہ ’دریائے غذر نے نیچھے گلگلت اور چلاس میں لوگوں کا انخلا شروع کیا گیا ہے اور شام تک اپریشن مکمل کیا جائے گا۔‘
پاکستان بارشوں اور سیلاب سے ہونے والا جانی نقصان
پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق 26 جون سے اب تک ملک بھر میں مون سون بارشوں اور سیلاب سے جڑے واقعات میں اموات کی تعداد 771 ہو گئی ہے، جن میں 194 بچے اور 116 خواتین شامل ہیں جبکہ لگ بھگ 1 ہزار افراد زخمی بھی ہوئے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر 4 ہزار 708 گھروں کو نقصان پہنچا جبکہ متاثرہ علاقوں میں 5 ہزار 416 جانور بھی مر چکے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق ملک میں وسیع مون سون بارشوں اور گلگت بلتستان میں گلیشیائی جھیلوں کے پھٹنے کے واقعات سے پانی کے بڑے اخراج کے باعث پاکستان کے بڑے آبی ذخائر اب اپنی مکمل گنجائش تک بھر گئے ہیں۔
دریائے ستلج کے کنارے آبادیوں کو انخلا کی ہدایت
دوسری جانب پاکستان میں بہنے والے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور جمعے کو حکام نے پنجاب میں دریائے ستلج کے کنارے آبادیوں کو انخلا کی ہدایت جاری کر دی ہے۔
این ڈی ایم اے نے جمعے کو ایک بیان میں کہا کہ ’این ڈی ایم اے نے صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی پنجاب کو دریائے ستلج کے کنارے سے آبادیوں کے انحلا کی ہدایت کر دی اور تمام متعلقہ اداروں اور ایمرجنسی سروسز کو الرٹ کر دیا گیا۔‘
این ڈی ایم اے کی طرف سے جاری الرٹ میں کہا گیا کہ دریائے ستلج میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس میں 23 اگست کو مزید شدت آ سکتی ہے۔
گذشتہ روز فلڈ فارکاسٹ ڈویژن کنٹرول روم نے بتایا تھا کہ پڑوسی ملک انڈیا نے بغیر اطلاع دیے دریائے ستلج میں 70 ہزار کیوسک پانی چھوڑ دیا ہے، جس سے سیلابی صورت حال کا خدشہ ہے۔
سندھ میں مزید بارشوں اور اربن فلڈنگ کی واننگ
صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے بھر میں گذشتہ تین روز سے جاری شدید بارشوں کے بعد این ڈی ایم اے نے مزید بارشوں اور سیلابی صورت حال کی وارننگ جاری کردی۔
این ڈی ایم اے کے اعلامیے کے مطابق سندھ کے مختلف اضلاع میں جمعے کو شدید بارش کا امکان ہے۔
اعلامیے کے مطابق کراچی، ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھرپارکر، حیدرآباد، نوابشاہ، دادو، خیرپور، سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد اور کشمور متاثر ہو سکتے ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق ’بارشوں کا یہ نیا سسٹم دو سے تین دن تک جاری رہنے کا امکان ہے اور شدید موسم سندھ کے مختلف حصوں میں اچانک سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔
خصوصاً ’کراچی، حیدرآباد اور دیگر ساحلی علاقوں، خاص طور پر نشیبی اور ناقص نکاسی والے مقامات پر شہری سیلاب کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘