پاکستان میں فلڈ فارکاسٹ ڈویژن کنٹرول روم کے مطابق پڑوسی ملک انڈیا نے بغیر اطلاع دیے دریائے ستلج میں پانی چھوڑ دیا ہے، جس سے سیلاب کی صورت حال کا خدشہ ہے۔
پاکستان میں حالیہ بارشوں کے سبب دریائے ستلج سمیت دیگر دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
فلڈ فارکاسٹ ڈویژن کنٹرول روم کے مطابق: ’انڈیا کی جانب سے بغیر اطلاع دیے 70 ہزار کیوسک پانی دریائے ستلج میں چھوڑا گیا ہے، جس کے بعد پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے جبکہ مزید پانی چھوڑے جانے کا بھی خدشہ ہے۔‘
سندھ طاس معاہدے کے مطابق انڈیا، پاکستان کو اضافی پانی چھوڑنے سے پہلے اطلاع دینے کا پابند ہے لیکن فلڈ فارکاسٹ ڈویژن کنٹرول روم کے مطابق ’کشیدہ صورت حال کے پیش نظر انڈیا نے ہاٹ لائن رابطے بھی منقطع کر رکھے ہیں، لہذا پاکستانی ادارے اپنے ذرائع سے پانی کی آمد پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
انڈیا نے اپنے زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک حملے میں 26 اموات کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے سمیت دیگر یکطرفہ اقدامات کیے تھے۔
بند ٹوٹنے سے نقصانات
دریائے ستلج میں پانی کی سطح بلند ہونے کے باعث بہاولپور میں منگل کو ڈیرہ بکھا کے قریب زمیندارہ بند ٹوٹ گیا اور ہزاروں ایکڑ پر کھڑی تیار فصلیں زیرِ آب آ گئیں جبکہ پانی کی سطح میں اضافے سے ایمپریس برج پر بھی دباؤ بڑھنے لگا ہے۔
قصور میں گنڈا سنگھ والا سے ملحقہ دیہات میں پانی داخل ہونے سے فصلیں بری طرح متاثر ہوئیں جبکہ پاکپتن اور عارف والا میں سیلابی صورت حال کے باعث احتیاطی اقدامات کرلیے گئے ہیں۔
دوسری جانب حالیہ شدید بارشوں کی وجہ سے دریائے سندھ میں تونسہ کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے، جس کے نتیجے میں تونسہ کی 60 سے زائد بستیاں زیرِ آب آگئی ہیں جب کہ تونسہ، دراہمہ، غازی گھاٹ کے کچے علاقوں میں پانی داخل ہوگیا، جس کے بعد انتظامیہ نے لوگوں کو نقل مکانی کی ہدایت کر دی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنجاب ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے ترجمان کے مطابق: ’گلیشیئر پگھلنے اور مون سون بارشوں کے باعث پنجاب کے دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تربیلا ڈیم 100 فیصد اور منگلا ڈیم 74 فیصد پانی سے بھر چکا ہے۔‘
پی ڈی ایم اے ترجمان کے مطابق: ’دریائے سندھ میں چشمہ اور کالاباغ بیراج پر نچلے درجے جبکہ تونسہ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ دریائے ستلج میں گنڈا سنگھ والا اور بید سلیمانکی کے مقامات پر بھی نچلے درجے کا سیلاب ہے۔‘
انڈیا اور پاکستانی حکام کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے مابین عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدہ ستمبر 1960 میں عمل میں آیا تھا، جس کے تحت انڈیا اور پاکستان کے درمیان دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانی کی تقسیم کا معاملہ طے پایا۔
اس معاہدے کے تحت، پاکستان کو مغربی دریاؤں دریائے سندھ، چناب اور جہلم کے پانی کا زیادہ تر حصہ دیا گیا جبکہ انڈیا کو مشرقی دریاؤں دریائے راوی، بیاس اور ستلج کے پانی پر اختیار ہے، لیکن حالیہ تنازعے کی وجہ سے انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں میں پانی کے معاملات طے کرنے کے لیے دو طرفہ واٹر کمشنرز کے اجلاس ہونا لازمی ہیں، لیکن انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس مئی 2022 کو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ اس کے بعد کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا گیا۔
پاکستان کے دریاؤں میں تجاوزات کا معاملہ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل نے دریاؤں اور آبی گزرگاہوں کے راستوں میں قائم تجاوزات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے رواں سال فروری میں فیڈرل فلڈ کمیشن کو ایک ماہ میں یہ تجاوزات ختم کروانے کی ہدایت کی تھی۔
اس دوران سیکریٹری آبی وسائل نے کمیٹی کو بتایا تھا کہ ڈیم سیفٹی ایکٹ کا مسودہ تیار ہے، جسے دو ماہ میں حتمی شکل دے دیں گے، ہم ٹنل سیفٹی کے معاملے کو بھی ایکٹ میں شامل کریں گے۔
سیکرٹری آبی وسائل نے کمیٹی کو یقین دہانی کروائی تھی کہ ہم ایک ماہ میں تجاوزات ختم کروائیں گے۔
دریائے چناب کے کنارے (بیٹ) جھنگ کے کاشت کار رہنما خاور سیال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’جن کاشت کاروں کے رقبے دریاؤں کے کنارے بیٹ میں واقع ہیں، وہاں وہ کاشت کاری کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کب سیلاب آنا ہے لہذا وہ اپنی فصلیں بھی اسی حساب سے اگاتے ہیں۔
’اگر سیلاب زیادہ آ جائے تو وہاں بنائی گئی ہمارے گھروں کی عمارتیں بھی بہہ جاتی ہیں اور جانور بھی پانی بہا کر لے جاتا ہے۔ بندوں کے اندر ہزاروں کاشت کاروں کی زمینیں ہیں جو زیادہ تر آبائی ہیں، لہذا ان کاشت کاروں کی زمنیوں کو تجاوزات میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بند ٹوٹنے کی صورت میں زیادہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ ہماری تمام تعمیرات اور رہائشیں بند کے ساتھ ہوتی ہیں، لہذا بندوں کی دیکھ بھال سب سے زیادہ ضروری ہے۔‘