پہاڑ سر کرنے کے جھوٹے دعوے یا شہرت کا نشہ؟ کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون کوہ پیما سوہنیا مہرین کے پاکستان میں 7027 میٹر کا پہاڑ سر کرنے کے دعوے پر ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس کی وجہ الپائن کلب پاکستان کی جانب سے اس دعوے کی تصدیق نہ کرنا ہے۔
اس ’جعلی سمٹ‘ کے دعوے کے بارے میں جنرل سیکرٹری الپائن کلب پاکستان نے کہا کہ ’جھوٹے دعوے اور پہاڑوں کی توہین ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ جو جان جوکھم میں ڈال کر پہاڑ سر کرتے ہیں یہ ان کے ساتھ زیادتی ہے اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بھی ہے۔‘
سوہنیا مہرین کے دعویٰ کے بعد سوشل میڈیا پر ماؤنٹین کمیونٹی سے محمد بلال اور بلال عباسی نے اس معاملے کو اٹھایا اور کہا کہ ’گذشتہ برس اس خاتون نے خسرگنگ پیک جو چھ ہزار میٹر سے زیادہ اونچی ہے کو سر کرنے کا دعوی کیا تھا جبکہ رواں برس سپانٹک پیک، یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔‘
جب ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ان سے ثبوت مانگے گئے تو انہوں نے الپائن کلب کی مبارک باد کی تصویر اپ لوڈ کر دی۔ جس کے بعد الپائن کلب پاکستان کو میدان میں وضاحت کے لیے آنا پڑا کہ ’جو تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں وہ سمٹ کی ہیں ہی نہیں۔‘
پاکستان کے پہاڑوں پر دہائیوں سے غیرملکی کوہ پیما بڑی تعداد میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں سے پاکستان کوہ پیما بھی اس دوڑ میں شامل ہو کر پاکستان کا پرچم بلند کر رہے ہیں۔ لیکن حالیہ عرصے میں جعلی سمٹ اور شہرت کے جنون نے اس ماؤنٹین گیم کو نقصان بھی پہنچایا ہے۔
اس معاملے پر جب خاتون ٹریکر سوہنیا مہرین سے انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ’ان کے موبائل چارج نہیں تھے اس لیے تصاویری ثبوت ان کے فون میں میسر نہیں ہیں۔ پورٹر کے پاس ہیں۔‘ جو تصاویر انہوں نے شیئر کی وہ کیمپ ٹو اور تھری کی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کمنٹ کرنے سے گریز کیا۔
پاکستان میں چوٹی سر کرنے کی تصدیق کون کرتا ہے؟
پاکستان میں پہاڑ سر کرنے والوں کو الپائن کلب ضروری تصدیق کے بعد سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے۔ الپائن کلب کے جنرل سیکرٹری ایاز شگری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ الپائن کلب کے لوگو کے ساتھ تصویر سرٹیفیکیٹ نہیں ہے اور ہار تو وہ ہر پہاڑ پر جانے یا واپس آنے والے کو پہناتے ہیں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو لیکن سرٹفیکیٹ کے لیے جب تک لوازمات پورے نہ ہوں وہ جاری نہیں کیا جاتا۔
دنیا بھر میں صرف الپائن کلب پاکستان کے سرٹیفیکیٹ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 6500 میٹر تک کا پہاڑ سر کرنے کو ہم ٹریکنگ پیک کہتے ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ بلندی پر جانے کو پہاڑ ’سر ‘ کرنا کہتے ہیں۔ تصدیق کے لیے موبائل فون پہ ریئل ٹائم تصاویر دیکھی جاتی ہیں وہ تصاویر جیوری کو دکھائی جاتی ہیں جس میں معروف کوہ پیما شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پہاڑ کی چوٹی اور روٹ سے متعلق کچھ تکنیکی سوالات کیے جاتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سوشل میڈیا پر خاتون کوہ پیما کی جانب سے پہاڑ سر کرنے کے دعوے کے بعد تنقید اس وقت شروع ہوئی جب وہ چوٹی پر پہنچنے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکیں۔ انہوں نے یہ دعوی سندھ کی پہلی خاتون ہونے کی حیثیت سے بھی کیا لیکن بعد ازاں یہ بات سامنے آئی کہ سال 2017 میں اسی صوبے سے تعلق رکھنے والی خاتون سپانٹک پیک سر کر چکی ہیں۔
الپائن کلب پاکستان کے نومنتخب صدر میجر جنرل عرفان ارشد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ افواہیں ہم تک پہنچی ہیں ہم اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔ پہلے آنے کی دوڑ چل پڑی ہے اور یہ کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔‘
الپائن کلب کے سیکرٹری جنرل ایاز شگری نے کہا کہ ’اس معاملے کا سدباب ہونا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی جھوٹا دعوی نہ کرسکے۔ ’یہ بات تعصب کی نہیں ہے لیکن باوجود بار بار رابطہ کرنے کے خاتون کوئی بھی ثبوت دینے سے قاصر رہیں ہیں۔ ان کو دفتر بلایا تاکہ تصدیق کے لیے ضروری سوالات کے جواب حاصل کیے جا سکیں لیکن وہ اگلے دن دفتر نہ آئیں۔ انہوں نے جس گائیڈ کا نام لیا جب ہم نے اپنی تفتیش میں اس سے معلومات حاصل کیں تو اس نے تردید کر دی۔
بقول ان کے گائیڈ محبوب نے بتایا کہ سوہنیا ان کے ساتھ نہیں تھیں بلکہ ان کا گائیڈ/پورٹر الگ تھا۔ محبوب نے کہا ان کے ساتھ شگر سے تعلق رکھنے والے ینگ کوہ پیما آمنہ شگری تھیں جن کی سمٹ ہو چکی ہے۔ خاتون کے گائیڈ امین سے رابطہ کیا تو اس نے فون بند کر دیا۔‘
ایاز شگری نے مزید بتایا کہ ’جس وقت یہ دو گروپ سپانٹک کے لیے روانہ ہوئے وہاں ایک سپین کا کوہ پیما موجود تھا جس نے ان سے پہلے سمٹ کی تھی۔ جب سپین کے کوہ پیما سرٹیفیکیٹ کے لیے ہمارے دفتر آئے تو انہوں نے اپنے تصویری ثبوت اپنے فون سے دکھائے جس میں تاریخ اور وقت بھی درج تھا۔ اس غیرملکی کوہ پیما نے الپائن کلب کو تصدیق کی کہ یہ خاتون انہیں نیچے کیمپ میں ملیں جب وہ سمٹ کے لیے روانہ ہوئے لیکن وہ جب سمٹ کر کے واپس آئے تو خاتون وہاں موجود ہی نہیں تھیں بلکہ نیچے سے واپس چلیں گئیں۔‘
ایاز شگری کے مطابق؛ غیر ملکی کوہ پیما کے سامنے یہ معاملہ پاکستان کے لیے باعث شرمندگی ہے وہ یہ سوچیں گے کہ پاکستانی پہاڑ سر کرنے کے جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔‘
معروف کوہ پیما جھوٹے دعووں پر کیا کہتے ہیں؟
معروف کوہ پیما نائلہ کیانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں کہا ’ماؤنٹین سپورٹس میں اخلاقیات بہت اہم ہیں اور بدقسمتی سے چند پاکستانی خواتین پہلے آنے کی دوڑ میں جھوٹے دعووں میں آگے ہیں کیونکہ خاتون ہونے کی وجہ سے حوصلہ افزائی جاتی ہے جس کا اب غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس کا سدباب ضروری ہے۔ ریئل ٹائم پکچر اور جی پی ایس ڈیوائس سے جانچا جاتا ہے کہ سمٹ ہوئی ہے کہ نہیں۔ اگر کوئی ثبوت نہیں دے سکتا تو پھر اس کی تصدیق بھی نہیں ہو سکتی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’الپائن کلب کو ایسے عناصر کو سرٹیفیکیٹ بھی نہیں دینا چاہیے اور اس حوالے سے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کوئی بھی جعلی دعوے کر کے پہاڑوں کا مزاق نہ بنائے۔ اور جو ایکسپڈیشن کمپنیاں ایسے دعووں کو پروموٹ کرتی ہیں ان کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کچھ عرصہ قبل نیپال میں انڈین پولیس نے ماونٹ ایورسٹ سر کرنے کا جعلی دعوی کیا تھا۔ سچ سامنے آنے پر ان پر پابندی عائد کر دی تھی جبکہ جو گائیڈ ساتھ گیا تھا اس پر بھی دس سال پابندی لگائی گئی۔‘
معروف کوہ پیما ساجد سد پارہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ’ہم تو 360 تصاویر بناتے ہیں تاکہ ہر زاویے سے چوٹی نظر آ سکے۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک آلات جی پی ایس بھی جانچ کے لیے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ سپانسر کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کہ سمٹ ہو گئی ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہوتا تو یہ پوری کمیونٹی کے لیے بہت نقصان دہ بات ہے۔
’حال ہی میں کراچی کی خاتون نے سپانٹک پیک کو سر کرنے کا دعویٰ کیا ہے اس حوالے سے جب میں نے خود بھی چیک کیا تو مختلف ذرائع نے تصدیق کی کہ وہ کیمپ تھری سے اوپر نہیں گئیں لیکن نیچے جا کر دعویٰ کیا کہ انہوں نے سمٹ کر لی ہے۔‘
سنہری چوٹی
سپانٹک کا پہاڑ جسے ’گولڈن پیک‘ بھی کہا جاتا ہے قراقرم رینج کا ایک مشہور پہاڑ ہے جس کو سر کرنے کے لیے ہر سال کئی غیر ملکی و ملکی کوہ پیما جاتے ہیں۔ یہ پہاڑ گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں واقع ہے جس کی بلندی سطح سمندر سے 7027 میٹر ہے۔
سورج کی شعاعوں اور برفیلی چوٹی سے یہ سنہرا روپ دھار لیتی ہے جس کی وجہ سے اسے گولڈن پیک کا نام دیا گیا۔ اکثر کوہ پیما 8000میٹر کے پہاڑوں پر جانے سے قبل 7000میٹر کے اس پہاڑ پر جا کر قسمت آزمائی کرتے ہیں۔