لندن سے ایورسٹ: برطانوی کوہ پیماؤں کا سات دن میں چوٹی سر کرنے کا منصوبہ

چاروں کوہ پیما جمعے کو لندن سے روانہ ہوئے جن کا مقصد گھر سے چوٹی اور واپسی سمیت پوری مہم کو سات دن میں مکمل کرنا ہے۔

18 اپریل، 2024 کی اس تصویر میں ماؤنٹ ایورسٹ کے راستے پر واقع ایک کیمپ میں لگے خیموں کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی)

برطانیہ سے تعلق رکھنے والے چار سابق برطانوی فوجیوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کو صرف سات دن میں سر کرنے کی غیر معمولی مہم شروع کر دی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ ٹیم زینون گیس (xenon gas) کے استعمال سے بلندی کے مطابق جسم کو جلد ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہے یہ عرصہ عام طور پر ہفتوں پر محیط ہوتا ہے۔

یہ منصوبہ کوہ پیمائی کی دنیا میں خاصی توجہ اور تنقید کا باعث بن رہا ہے۔

ٹیم کی قیادت کرنے والے کرنل الیسٹر کارنز برطانوی پارلیمنٹ کے رکن اور وزارت دفاع میں اہم عہدے پر فائز ہیں جب کہ باقی ارکان میں  میجر گیرتھ ملر، انتھونی سٹاز سٹازکر اور سابق سپیشل فورسز کے اہلکار کیون گاڈلنگٹن شامل ہیں۔

یہ چاروں کوہ پیما جمعے کو لندن سے روانہ ہوئے اور نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو پہنچے اور پھر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایورسٹ بیس کیمپ گئے۔ ان کا مقصد گھر سے چوٹی اور واپسی سمیت پوری مہم کو سات دن میں مکمل کرنا ہے۔

یہ ٹیم کئی مہینوں سے تیاری میں مصروف تھی جس میں خاص ایک ایسے ٹینٹ میں وقت گزارنا شامل تھا جو نیند کے دوران آکسیجن کی سطح کم کرکے بلندی کا ماحول پیدا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹیم نے ایک بار زینون گیس کا استعمال بھی کیا جو کہ ای پی او نامی پروٹین کی پیداوار بڑھا کر خون میں سرخ خلیات کی تعداد میں اضافہ کر سکتی ہے۔

زینون گیس کا استعمال کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک متنازع معاملہ بن چکا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ زینون گیس سے ایورسٹ جیسے سخت ماحول میں کارکردگی بہتر بنانے کے سائنسی ثبوت محدود اور غیر واضح ہیں جب کہ کچھ کا موقف ہے کہ یہ عمل ’ڈوپنگ‘ جیسے غیرقانونی عمل کے زمرے میں آتا ہے۔ اگرچہ کوہ پیمائی کسی کھیل کی تنظیم کے تحت نہیں آتی اس لیے ڈوپنگ کا کوئی معاملہ کبھی رپورٹ ہی نہیں ہوا۔

کرنل الیسٹر کارنز کا کہنا ہے کہ ’یہ کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے معمول سے زیادہ سخت تربیت کی گئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: ’اگر موسم یا جسمانی حالات اجازت نہ دیں تو وہ مکمل مہم کو 21 دن میں مکمل کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘

اس منصوبے کے پیچھے تجربہ کار کوہ پیما لوکاس فرٹنباخ ہیں جنہوں نے اس سے قبل ’فلیش ایکسپیڈیشنز‘ متعارف کروائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کم وقت میں مہم مکمل کرنے سے ماحول پر بھی کم اثر پڑے گا اور یہ زیادہ محفوظ طریقہ ہو سکتا ہے۔

تاہم کئی ماہرین اور تجربہ کار کوہ پیما اس مہم کو ’سیاحت‘ اور ’کمرشل مقاصد‘ کا حصول قرار دیتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ کوہ پیمائی کا اصل جوہر صبر، قربانی اور قدرت کے ساتھ ہم آہنگی میں ہے۔

دوسری جانب اس مہم کی حمایت کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ مشن نہ صرف ایک ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش ہے بلکہ اس کا مقصد جدید ٹیکنالوجی اور تیاری کے ذریعے کوہ پیمائی کے روایتی طریقوں کو چیلنج کرنا اور سابق فوجیوں کی فلاح و بہبود کے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔

یہ ٹیم اب ایورسٹ کے قریب ہے اور آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا کہ جدید سائنس اور تربیت، روایتی کوہ پیمائی کے اصولوں کو چیلنج کر کے واقعی کامیابی حاصل کر سکتی ہے یا نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل