اقوام متحدہ نے جمعہ کو باضابطہ طور پر غزہ کو قحط زدہ علاقہ قرار دے دیا ہے جو مشرق وسطیٰ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں پانچ لاکھ افراد ’تباہ کن‘ بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے امدادی سربراہ ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ یہ قحط مکمل طور پر روکا جا سکتا تھا، تاہم خوراک فلسطینی علاقے تک نہیں پہنچ سکی ’کیونکہ اسرائیل کی منظم رکاوٹوں‘ کے باعث امداد کی فراہمی ممکن نہ ہو سکی۔
تاہم اسرائیلی وزارت خارجہ اقوام متحدہ کے اس بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’غزہ میں کوئی قحط نہیں ہے۔‘
اپنے بیان میں اس نے روم میں قائم آئی پی سی پینل کی رپورٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ ’حماس کے جھوٹ پر مبنی ہے، جنہیں مفاد پرست تنظیموں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔‘
اقوام متحدہ کی ایجنسیاں کئی ماہ سے فلسطینی علاقے میں بگڑتی ہوئی انسانی صورت حال پر خبردار کرتی آ رہی ہیں۔
جمعہ کو جاری اپنی تازہ ترین اطلاعات میں، آئی پی سی نے کہا: ’15 اگست 2025 تک، غزہ میں قحط کی معقول شواہد کے ساتھ تصدیق ہو چکی ہے۔‘ یہ شہر غزہ پٹی کے تقریباً 20 فیصد رقبے پر محیط ہے۔
قحط کی صورت حال ستمبر کے آخر تک دیر البلاح اور خان یونس تک پھیلنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں یہ بحران فلسطینی علاقے کے تقریباً دو تہائی حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ کے مطابق، ’22 ماہ سے جاری شدید تنازعے کے بعد، غزہ پٹی میں پانچ لاکھ سے زائد افراد قحط، افلاس اور موت کی کیفیت سے دوچار ہیں۔‘
یکم جولائی سے 15 اگست کے درمیان حاصل کی گئی معلومات کی بنیاد پر یہ تعداد بڑھ کر ستمبر کے آخر تک تقریباً چھ لاکھ 41 ہزار ہو جانے کی توقع ہے۔ جو کہ غزہ کی کل آبادی کا تقریباً ایک تہائی ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ان میں سے تقریباً دو لاکھ 80 ہزار افراد شمالی علاقے میں مقیم ہیں، جسے غزہ گورنریٹ کہا جاتا ہے اور آئی پی سی کے مطابق یہ قحط زدہ علاقہ قرار پایا ہے، جو اس علاقے میں پہلا ایسا اعلان ہے۔
باقی دیر البلاح اور خان یونس ہیں جو کہ غزہ کے وسطی اور جنوبی علاقے ہیں جہاں ستمبر کے آخر تک قحط کے پھیلنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
کسی علاقے کو قحط زدہ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم 20 فیصد آبادی شدید غذائی قلت کا شکار ہو، ہر تین میں سے ایک بچہ شدید غذائی کمی کا شکار ہو، اور ہر 10 ہزار افراد میں سے کم از کم دو روزانہ بھوک، غذائی قلت یا بیماری کے باعث مر رہے ہوں۔
اگرچہ بعض اوقات یہ شرائط مکمل طور پر پوری نہ ہونے پر کسی علاقے کو باضابطہ طور پر قحط زدہ قرار نہیں دیا جاتا، پھر بھی آئی پی سی یہ تعین کر سکتا ہے کہ وہاں کے گھرانے قحط کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، جسے وہ بھوک، افلاس اور موت سے تعبیر کرتا ہے۔