اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بدھ کو غزہ شہر پر ’مکمل قبضے کے منصوبے‘ کی منظوری دے دی ہے اور تقریباً 60 ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق وزیر دفاع اسرائیل کاٹز کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ثالثوں کو فائر بندی کی اپنی تازہ ترین تجویز پر اسرائیل کے سرکاری جواب کا انتظار ہے۔
قطر نے حالیہ تجویز پر محتاط امید کا اظہار کیا ہے، جبکہ ایک سینیئر اسرائیلی اہلکار نے واضح کیا ہے کہ حکومت کسی بھی معاہدے میں تمام قیدیوں کی رہائی پر قائم ہے۔
حماس کی جانب سے منظور کردہ تجویز میں ابتدائی 60 دن کی فائر بندی، مرحلہ وار قیدیوں کی رہائی، کچھ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور امداد کے داخلے کی اجازت شامل ہے۔
دوسری جانب، خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے بدھ کو بتایا کہ ملک کے بڑے جرنیلوں نے غزہ کے انتہائی گنجان آباد علاقوں میں کارروائی کے ایک نئے مرحلے کے آغاز کے لیے دسیوں ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کرنے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے فوجی اہلکار نے بتایا کہ اسرائیلی فوج ان علاقوں میں کارروائی کرے گی جہاں وہ پہلے نہیں گئی اور جہاں حماس اب بھی سرگرم ہے۔
اسرائیلی فوج پہلے ہی غزہ شہر کے زیتون اور جبالیہ محلوں میں موجود ہے تاکہ مجوزہ وسیع کارروائی کی تیاری کی جا سکے۔ اس کارروائی کی منظوری آنے والے دنوں میں چیف آف سٹاف کی جانب سے متوقع ہے۔ کارروائی کب شروع ہو گی، یہ تاحال واضح نہیں۔
اہلکار نے کہا کہ آئندہ ماہ کے دوران 50 ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کیا جائے گا، جس سے ریزرو اہلکاروں کی کل تعداد 1 لاکھ 20 ہزار ہو جائے گی۔
اسرائیل کے وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے رواں ماہ کے آغاز میں کہا تھا کہ اس کارروائی کا مقصد باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانا اور حماس و دیگر جنگجو گروہوں کو اسرائیل کے لیے دوبارہ خطرہ بننے سے روکنا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ باقی قیدیوں کی رہائی صرف مستقل فائر بندی اور اسرائیلی انخلا کے بدلے ممکن ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے ایف پی نے حماس اور اس کی اتحادی تنظیم اسلامی جہاد کے ذرائع کے خوالے سے خبر دی ہے کہ حالیہ فائر بندی تجویز کے تحت پہلے مرحلے میں 10 قیدی اور 18 لاشوں واپس کی جائیں گی جبکہ باقی قیدیوں کو دوسرے مرحلے میں رہا کیا جائے گا۔
اسرائیلی سلامتی کابینہ کی جانب سے ’غزہ پر قبضے‘ کی منظوری کے بعد وہاں انسانی بحران کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ قطر اور مصر، جنہیں امریکہ کی حمایت حاصل ہے، ثالثی میں مصروف ہیں۔
قطر نے کہا کہ حالیہ تجویز ’تقریباً اسی جیسی‘ ہے جیسی ایک سابقہ تجویز تھی جسے اسرائیل نے منظور کیا تھا۔ مصر کا کہنا ہے کہ اب ’گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔‘
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے تاحال فائر بندی کے منصوبے پر عوامی طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم گذشتہ ہفتے انہوں نے کہا تھا کہ ان کا ملک ’صرف ایسے معاہدے کو قبول کرے گا جس میں تمام قیدیوں کو بیک وقت اور جنگ کے خاتمے سے متعلق ہماری شرائط کے مطابق رہا کیا جائے۔‘
حماس کے سینیئر رہنما محمود مرداوی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ان کی تنظیم نے ’معاہدے تک پہنچنے کے امکانات کے لیے دروازہ پوری طرح کھول دیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا نتن یاہو ایک بار پھر اسے بند کریں گے، جیسا کہ وہ ماضی میں کر چکے ہیں۔‘
اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق نتن یاہو نے تاحال کسی بھی ردعمل پر غور کے لیے سکیورٹی کابینہ کا اجلاس نہیں بلایا۔
فائر بندی کی حالیہ تجویز ایسے وقت میں آئی ہے جب وزیر اعظم نتن یاہو کو اندرون ملک اور دنیا میں بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔
گذشتہ ہفتے کے دوران اسرائیل نے غزہ پر فضائی اور زمینی حملے تیز کر دیے ہیں۔
اسرائیلی فوجی ریڈیو کے مطابق فوج ’چند ماہ پر محیط ایک طویل آپریشن‘ کی تیاری کر رہی ہے جو 2026 تک جاری رہ سکتا ہے۔
بدھ کو ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے صحافیوں کو بتایا کہ جنگ کے اس نئے مرحلے میں ’غزہ شہر اور اس کے ارد گرد ایک تدریجی، درست اور ہدفی کارروائی‘ کی جائے گی، جن علاقوں میں پہلے فوجی کارروائی نہیں ہوئی، وہ بھی شامل ہوں گے۔
اہلکار نے بتایا کہ فوج زیتون اور جبالیہ کے محلوں میں ابتدائی مرحلے کے تحت کارروائی کا آغاز کر چکی ہے۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی نے کہا ہے کہ بدھ کو اسرائیلی حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں علاقے بھر میں کم از کم 21 افراد قتل کر دیے گئے۔
حماس کے اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے میں 1219 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیلی حملوں میں اب تک کم از کم 62 ہزار فلسطینی قتل کیے جا چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو مستند تسلیم کرتی ہے۔