امریکہ نے پاکستان پر 29 فیصد ٹیرف لگایا تھا جسے نو جولائی 2025 تک عارضی طور پر معطل کیا گیا تھا۔
اس دوران یہ توقع کی جا رہی تھی کہ امریکہ کے ساتھ ایک ایسا تجارتی معاہدہ کیا جاسکے گا جس کا فائدہ امریکہ اور پاکستان دونوں ممالک کو ہو سکے۔
ڈیڈلائن ختم ہونے میں صرف چند دن باقی ہیں اور ابھی تک معاہدہ نہیں ہو سکا اورکوئی واضع شکل بھی سامنے نہیں آ سکی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا؟
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مرتبہ اعلان کیا ہے کہ وہ صرف ان ممالک پر ٹیرف لگا رہے ہیں جو امریکی مصنوعات پر ٹیکس لگاتے ہیں۔ پاکستان امریکہ سے تقریبا ایک ارب ڈالر کی درآمدات کرتا ہے جس پر تقریبا 15سے 20 کروڑ ڈالر ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے۔
’اگر پاکستان اعلان کر دے کہ وہ امریکہ کی تمام درآمدات کو ٹیکس فری کر رہا ہے تو پاکستان کو تقریبا 15 سے 20 کروڑ ڈالر ٹیکس کم اکٹھا ہو گا لیکن اس کے بدلے پاکستان کی امریکہ برآمدات 12 ارب ڈالرز تک بڑھ سکتی ہیں۔ 20 کروڑ لگا کر اگر چھ ارب ڈالرز کما لیے جائیں تو یہ بہترین ڈیل ثابت ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’فری ٹریڈ معاہدہ کرنے کے لیے یہ بہترین وقت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ فیلڈ مارشل عاصم منیر صاحب کو لنچ کروا رہے ہیں اور مشاورت کر رہے ہیں۔ پاکستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا کی شدید مخالفت کے باوجود ہر دوسرے دن پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں۔ ایئر چیف بھی امریکہ میں ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ کی کمپنی ورلڈ لبرٹی فنانشل کے ساتھ پاکستان میں معاہدہ بھی ہو گیا ہے۔
’یہ سنہرا وقت ہے، اگر اس دور میں امریکہ کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ نہیں ہو سکتا تو پھر شاید کبھی بھی نہیں ہو سکے گا۔ مشرف دور میں ہم نے امریکہ سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کی بات کی تھی اور اس پر کافی پیش رفت بھی ہوئی تھی لیکن مشرف حکومت کے خاتمے کی وجہ سے معاملہ التوا کا شکار ہو گیاتھا۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر ملکوں کے ساتھ پاکستانی برآمدات کا موازنہ کیا جائے تو پاکستان سب سے زیادہ ٹیکسٹائل برآمدات امریکہ کو کرتا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل ہے جس کا تقریبا 90 فیصد سے زائد امریکہ سے جڑا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر ٹریڈ معاہدہ نہیں ہوتا تو 29 فیصد ٹیرف لگنے سے پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات بری طرح متاثر ہو سکتی ہیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری مزیر بند ہو سکتی ہے اور ملک میں بے روزگاری میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس ڈیل میں پاکستان کو امریکی خام تیل خریدنا پڑ سکتا ہے اور پاکستانی معدنیات میں امریکی سرمایہ کاری آ سکتی ہے۔ اگر نو جولائی سے قبل بہتر پیش رفت ہو گئی تو ممکنہ طور پر ڈیڈ لائن میں توسیع ہو سکتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر امریکہ کے ساتھ ٹریڈ معاہدہ نہ ہوا تو پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات کا رخ یورپ کی طرف موڑا جا سکتا ہے۔ گو کہ اس میں وقت لگ سکتا ہے لیکن زیادہ مشکل نہیں ہے۔ پاکستان یورپ کو تقریبا نو ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے۔ یورپ نے پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹیس دے رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستانی برآمدات پر ٹیکس تقریبا صفر ہے۔ جبکہ امریکہ میں ابھی تک پاکستان کے لیے یہ سہولت نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی ایکسپورٹ لائن اتنی بڑی نہیں ہے۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان پر مہربان ہیں۔ اسٹریٹجک سطح پر ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ امید ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان بہتر معاہدہ جلد ہو جائے گا اور 29 فیصد ٹیکس لگانے کی بجائے پاکستان کو دیگر ممالک کی نسبت بہتر پیکیج مل سکتا ہے۔
ہارون ٹیکسٹائل یورپ اور امریکہ میں ٹیکسٹائل مصنوعات برآمد کرتی ہے۔ اس ادارے کے مالک ہارون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارا ایک وفد اس وقت امریکہ میں ہے جو ٹیرف پر مذاکرات کر رہا ہے اور امید ہے کہ اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ اگر امریکہ درآمدات بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے تو پاکستان کو فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان کو صرف درآمدات ایک ملک سے دوسرے ملک شفٹ کرنی پڑیں گی۔زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر امریکہ سے ٹیرف معاہدہ نہیں ہوتا تو پاکستان کا بڑا مالی نقصان ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق پاکستان کے 10 بڑے ٹیکسٹائل گروپس کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ پاکستان میں تمام بڑے ٹیکسٹائل گروپس کا مینوفکچرنگ ماڈل بڑے سکیل پر ڈیزائن ہوا ہے۔ امریکہ میں زیادہ آبادی کی وجہ سے بڑے آرڈرز آسانی سے مل جاتے ہیں۔ یورپی یونین میں بڑے آرڈرز لینا مشکل ہے کیونکہ مختلف ممالک کے کوالٹی کے معیار مختلف ہیں۔
ہارون ٹیکسٹائل کے مالک کا کہنا تھا کہ پاکستانی کمپنیوں کے لیے سب سے بڑی مارکیٹ امریکہ ہے۔ان سب کے آوٹ لٹس اور آفس امریکہ میں بھی ہیں۔ ’اگر ٹاپ ٹین ٹیکسٹائل متاثر ہوئیں تو ملک کا جی ڈی پی کم ہو سکتا ہے، بےروزگاری بڑھ سکتی ہے اور کمپنیاں بیرون ملک منتقل ہو سکتی ہیں۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پاکستان کی کل برآمدات تقریبا 36 ارب ڈالر ہے۔ امریکہ کو برآمدات تقریبا 17 فیصد کے قریب ہے لیکن ٹیکسٹائل برآمدات میں امریکہ کا حصہ تقریبا 92 فیصد ہے۔
’پاکستان اور امریکہ کے درمیان کل تجارت تقریبا سات ارب ڈالر ہے۔ امریکہ کے ساتھ تجارت کا پاکستان کے کرنٹ اکاونٹ پر مثبت اثر پڑتا ہے۔‘
ظفر پراچے کے مطابق اگر کسی وجہ سے 29 فیصد ٹیرف بحال ہو گیا تو پاکستان کا کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھ سکتا ہے اور ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
امریکہ سے معاہدہ نہ ہونے کا اثر دیگر ممالک کے ساتھ ٹریڈ پر بھی پڑ سکتا ہے۔ آئی ایم ایف اور امریکہ کے اتحادی پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
نوٹ: اس کالم میں اظہار خیال مصنف کے ذاتی ہیں اور ضروری نہیں کہ انڈپینڈنٹ اردو کی اداراتی پالیسی کی عکاسی کریں۔