امیری اور غریبی: معاشرتی تضاد کی صدیوں پر محیط کہانی

دنیا سے غربت ختم ہوئی ہے نہ غریب، لیکن اتنا ضرور ہے کہ آج کی دنیا میں غریبوں کی حالت اس سے بہت مختلف ہے جس کا ماضی میں وہ سامنا کر چکے ہیں۔

کینیا میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتے رہے ایک خاندان کے افراد (آکسفیم)

معاشرے میں زندگی کے دو متضاد پہلو ہیں۔ امارت میں محنت اور مشقت نہیں ہے جبکہ غربت میں روزمرہ کی زندگی میں محنت کی ضرورت ہے۔ غربت احساس کمتری اور محرومی کو بھی پیدا کرتی ہے۔

غربت اور مفلسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انسان کی عزت و وقار کو ختم کر کے اسے صاحب ثروت طبقے کا محتاج بنا دیتی ہے۔ لیکن قدیم یونانی فلسفی اور ہندو مت کے مفکرین اس سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک دراصل امرا کا طبقہ ہر کام کے لیے غریبوں کا محتاج ہوتا ہے جبکہ غریب تمام سہولتوں کو چھوڑ کر آزاد زندگی گزارتے ہیں۔ وہ دنیاوی فکروں سے آزاد ہوتے ہیں۔

قدیم یونان میں فلسفی ہیراکلائٹس اور اس کے دوسرے ساتھیوں نے اپنی دولت اور جائیداد کو غریبوں میں تقسیم کر دیا اور اپنی زندگی غربت میں گزاری۔ ان کا خیال تھا کہ غربت میں رہتے ہوئے وہ دنیاوی فکروں کو چھوڑ کر فلسفے میں نئے خیالات و افکار پیدا کریں گے۔ جس سے ان کی زندگی خوشی اور مسرت سے دوچار ہو گی۔

ایک دوسرا یونانی فلسفی ایپی کیورس تھا جس کی غذا صرف روٹی اور زیتوں کا تیل تھا۔ بس کبھی کبھی پنیر میسر ہو جاتا تھا۔ اس غربت کی حالت میں اس نے اپنا فلسفہ ایپی کیورن پیدا کیا۔

برصغیر ہندوستان میں گوتم بدھ کے پیروکار جو بھکشو کہلاتے تھے، وہ گھر گھر جا کر بھیک مانگتے تھے اور اپنا وقت عبادت و ریاضت میں گزارتے تھے۔ غربت کی وجہ سے ان کی عبادت میں دنیاوی خیالات نہیں آتے تھے۔

فرانسس اسیسی نے 1209 میں فرانسسکن جماعت کی بنیاد ڈالی۔ یہ ایک ردعمل تھا جو چرچ اور امرا کی امیرانہ زندگی کے خلاف تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دن اس نے چرچ میں اپنے امیرانہ لباس کو اتار پھینکا اور راہبانہ لباس پہن کر عہد کیا کہ وہ اپنی بقایا زندگی غربت میں گزارے گا اور غریبوں کی مدد کرے گا۔

اس کی جماعت میں اضافہ ہوتا رہا اور اس نے پوری عیسائی دنیا میں غریبوں کے لیے کام کیا۔ وہ اور اس کے ساتھی غربت کی حالت میں رہے۔

لیکن ان تحریکوں کی وجہ سے غربت کا خاتمہ نہیں ہوا۔ غریب لوگوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ گائوں اور دیہاتوں کے بے روزگار نوجوان آوارہ گردی کرتے تھے۔ ان کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ غریبوں کی مدد کے لیے ریاست کی جانب سے کوئی انتظام نہیں تھا۔ پیشہ ور افراد جن میں موچی، درزی، بڑھئی، معمار، قصائی، نائی وغیرہ شامل تھے، بمشکل اپنا گزارہ کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پھیری والے تھے جو گھر گھر جا کر اپنا مال بیچتے تھے لیکن جب روزمرہ کی زندگی میں کھانا نہ ملے تو فقیروں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ شہروں میں فقیروں کی بڑی تعداد تھی۔ ان کی اپنی منظم جماعتیں تھیں جو شہروں میں بازاروں اور چوکوں پر کھڑے ہو کر بھیک مانگتے تھے۔

اس صورت حال میں سب سے پہلے چرچ نے غریبوں کے لیے خیرات کا انتظام کیا۔ عہد وسطیٰ میں چرچ ایک مال دار ادارہ تھا۔ امرا ثواب کی خاطر چرچ کو عطیات دیا کرتے تھے۔ چرچ کی اپنی زمینیں تھیں جن سے ان کو آمدنی ہوتی تھی۔ اس لیے چرچ نے غریبوں کو خیرات دینے کا انتظام کیا۔

جب پروٹسٹنٹ چرچ کا قیام عمل میں آیا تو اس نے بھی غریبوں کے لیے فلاحی ادارے قائم کیے۔ غریبوں کی امداد کے لیے تیسرا بڑا ذریعہ یورپ کے شہروں میں میونسپلٹی کا قیام تھا۔ میونسپلٹی شہر کے غریبوں کو امداد تو دیتی تھی مگر اس کے لیے اس کی شرائط تھیں۔ مثلاً جو غریب دوسرے شہروں سے آ جاتے تھے ان کی کوئی مدد نہیں کی جاتی تھی۔

وقت گزرنے کے بعد سوسائٹی کے ارباب اقتدار کو یہ خیال آیا کہ غریبوں کو مدد دینا اور ان سے کوئی کام نہ لینا معاشرے کے لیے ایک بوجھ ہے۔ لہٰذا خیرات صدقہ اور مالی امداد کے بجائے غریبوں کو کارآمد بنایا جائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ورک ہاؤس کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں بےروزگار لوگوں سے کام لیا جاتا تھا اور ان کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام ہوتا تھا۔ لیکن یہ تجربہ ناکام رہا کیونکہ کام کرنے والے لوگ سختیوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔

برطانوی حکومت نے بھیک مانگنے کے خلاف قوانین بنائے تاکہ لوگ جگہ جگہ مجمع لگا کر بھیک کے لیے لوگوں کو تنگ نہ کریں۔ حکومت نے Poor Law بھی پاس کروایا تاکہ غریبوں کی مدد ہو سکے۔ چرچ اور میونسپلٹی کے علاوہ ایسے نجی ادارے بھی تھے۔ جن کو امراء عطیات دیا کرتے تھے اور ان کا مقصد بھی غریبوں کی مدد کرنا تھا۔

تاریخ نے یہ ثابت کیا کہ محض فلاحی اداروں کے ذریعے غربت کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں کام کرنے کی سہولتیں میسر ہوں لہٰذا انقلابی تبدیلی اس وقت آئی جب صنعتی انقلاب آیا اور لوگوں کو فیکٹریوں اور کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس نے غربت کا خاتمہ تو نہیں کیا مگر خیرات و صدقات کے ذرائع بند ہو گئے۔ غریب لوگ محنت و مشقت کے ذریعے اپنا گزارہ کرنے لگے۔

صنعتی انقلاب نے ایک جانب جہاں لوگوں کو روزگار فراہم کیا وہیں اس نے 14 سے 15 گھنٹے کام لے کر کم از کم مزدوروں کو معاوضہ دیا۔ مردوں اور عورتوں کی تنخواہوں میں فرق تھا۔ بچے جو کوٹلے کی کانوں میں کام کرتے تھے۔ ان کا معاوضہ بہت قلیل تھا۔

فیکٹری سسٹم نے مزدوروں میں اتحاد کو پیدا کیا۔ ان میں یہ احساس بھی ہوا کہ ان کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے، لہٰذا مزدوروں نے ٹریڈ یونینز بنائیں۔ ہڑتال جیسے حربے کو استعمال کر کے سرمایہ داروں پر دبائو ڈالا کہ وہ ان کے مطالبات پورے کریں۔

دوسری جانب برطانوی پارلیمان میں اس پر بحث ہوئی کہ مزدوروں کی حالت کو کیسے بہتر بنایا جائے، کیونکہ مزدوروں کی اکثریت ان علاقوں میں رہتی تھی جہاں نہ تو گندے پانی کی کوئی نکاسی تھی، نہ سڑکوں کی صفائی اور کوڑا کرکٹ اُٹھانے کا انتظام، دو کمروں کے مکان میں پورا خاندان رہتا تھا۔ نہ صاف پینے کا پانی میسر تھا نہ صاف غذا ہر قسم کی بیماری عام تھی۔

جب سرکاری رپورٹوں کے ذریعے یہ معلومات پارلیمان تک گئیں تو ریاست اور سرمایہ دار کو یہ احساس ہوا کہ بیمار اور غیر صحت مند مزدور محنت سے کام نہیں کر سکے گا۔

ان خیالات کی وجہ سے اصلاحات کا سلسلہ شروع ہوا اور غریبوں کی حالت بدلنا شروع ہوئی۔

دنیا سے غربت ختم ہوئی ہے نہ غریب، لیکن اتنا ضرور ہے کہ آج کی دنیا میں غریبوں کی حالت اس سے بہت مختلف ہے جس کا وہ ماضی میں وہ سامنا کر چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ